• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال 14؍جون کو عالمی سطح پر خون کا عطیہ دینے کا دن (World Blood Donor Day) منایا جاتا ہے۔یہ دن منانے کا مقصد خون کے عطیات کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور لوگوں کو خون دینے کی ترغیب دینا ہے۔ خون کا عطیہ، انسانی ہمدردی کا مظہر ہے جو کسی بھی انسان کی زندگی بچا سکتا ہے۔ اس دن کو منانے کا ایک مقصد خون کے عالمی عطیہ دہندگان سے اظہار تشکراور نئے عطیہ دہندگان کو اس نیکی کی طرف راغب کرنا ہے۔عالمی یوم خون عطیہ پہلی بار 2004ء میں منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا فیصلہ عالمی ادارہ صحت (WHO)، انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز (IFRC)اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے مشترکہ طور پر کیا۔14 جون کی تاریخ کو اسلئے منتخب کیا گیا کیونکہ یہ کارل لینڈسٹینر کا یوم پیدائش ہے، جنہوں نے بلڈ گروپس دریافت کیے تھے اور طب کی دنیا میں انقلاب برپا کیا۔سال 2025کا تھیم ہے کہ Give blood, give hope: together we save lives

(یعنی خون عطیہ کریں، زندگی کی امید بنیں)

خون کا عطیہ انسانی صحت کیلئے نہایت اہم ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد کو خون کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے وہ حادثات، سرجری، کینسر یا دیگر بیماریوں کی وجہ سے ہو۔ خون کا کوئی مصنوعی متبادل نہیں، اس لیے رضاکارانہ خون دینے والوں کی موجودگی ہی زندگیاں بچانے کا واحد ذریعہ ہے۔ خون دینا نہ صرف دوسروں کیلئے فائدہ مند ہے بلکہ عطیہ دہندہ کے اپنے لیے بھی کئی طبی فوائد رکھتا ہے۔خون دینے سے خون کی کثافت کم ہوتی ہے، جس سے دل کو خون پمپ کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور دل کے امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ خون دینے سے جسم میں فاضل آئرن کی مقدار کم ہوتی ہے، جو جگر کیلئے فائدہ مند ہے۔ خون دینے کے بعد جسم نئے خون کے خلیات بناتا ہے، جو صحت مند خون کی گردش کو یقینی بناتا ہے۔ خون دینے والے کو یہ جان کر اطمینان ہوتا ہے کہ اس کے چند قطروں نے کسی کی زندگی بچائی ہے۔ خون کے عطیہ دہندہ کی عمر18 سے 60 سال کے درمیان ہونی چاہیے۔ خون دینے والے شخص کو کوئی سنگین بیماری (جیسے ہیپاٹائٹس، ایچ آئی وی ایڈز) نہیں ہونی چاہئے۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً 4 ملین یونٹس خون کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن صرف 50% خون ہی رضاکارانہ طور پر عطیہ کیا جاتا ہے باقی خون پیشہ ور خون فروش فراہم کرتے ہیں، جو اکثر غیر محفوظ ہوتا ہے۔ اسکی وجوہات میں عوام میں آگاہی کی کمی، غلط تصورات اور خون کے بینکوں کی کمی شامل ہے۔حکومت اور این جی اوز کی کوششوں کے باوجود، پاکستان میں خون کے عطیات کی شرح کم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام میں خون دینے کی اہمیت کے بارے میں شعور بڑھایا جائے اور مزید خون کے بینک قائم کیے جائیں۔خون عطیہ کرنے کے فوائد کی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ خون دینے سے گھبراتے ہیں کیونکہ ان کے ذہن میں کچھ غلط تصورات ہوتے ہیں جیسے’خون دینے سے کمزوری ہو جاتی ہے‘۔حقیقت یہ ہے کہ خون دینے کے بعد جسم نئے خون کے خلیات بناتا ہے، اور چند دن میں ہی خون کی مقدار بحال ہو جاتی ہے۔ دنیا بھر میں کئی ایسے افراد ہیں جنہوں نے مسلسل خون دے کر ہزاروں زندگیاں بچائی ہیں۔ جیمس ہیریسن نامی ایک آسٹریلوی شخص نے اپنی زندگی میں 1,173بار خون دیا، جس سے 2.4 ملین بچوں کی زندگیاں بچیں۔ پاکستان میں بھی کئی ایسے ہیروز ہیں جو سالانہ کئی بار خون دیتے ہیں اور معاشرے کیلئے مثال بنتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں بھی خون دینے والوں کی سرکاری سطح پر پذیرائی ہونی چاہئے۔ خون کے عطیات دینے والے رضاکاروں کو ایوان صدر،ایوان وزیر اعظم ،گورنر ہاؤس اور وزیر اعلیٰ ہاؤس بلا کر انہیں تعریفی اسناد دینی چاہئیں تاکہ انکی حوصلہ افزائی ہو اور دوسرے لوگ بھی انکی تقلید کرتے ہوئے خون دینے کی عادت اپنائیں۔

واضح رہے کہ ’’سْندس فائونڈیشن‘‘عرصہ 30 سال سے ملک بھر میں اپنے 10 سینٹرز کے ذریعے خون کی جان لیوا بیماریوں تھیلیسیمیا اور ہیموفیلیا کے لاکھوں مریضوں کا مفت علاج کر چکا ہے، کیونکہ یہ نجی ادارہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی مالی مدد اور خون عطیہ کرنیوالوںکے کے تعاونسے چلتا ہے، لہٰذا خون عطیہ کرنے کے عالمی دن پر ’’سْندس فائونڈیشن‘‘نے ملک بھر میں خون کے عطیات اور عوام کی آگاہی کیلئے مہم کاآغاز کیاہوا ہے، کیونکہ ’’سْندس فائونڈیشن‘‘کے ملک بھر کے مراکز میں اِس وقت 10 ہزار سے زائد مریض بچے زیر علاج ہیں جنہیں ہمہ وقت ادویات اور خون کی ضرورت رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ خون کے عطیات کے حصول کیلئے ’’سْندس فائونڈیشن‘‘کا ادارہ ہمیشہ متحرک رہتا ہے اور تمام شعبہ ہائے زندگی خصوصاً علماء کرام سے سے بھی درخوست کی گئی ہے کہ وہ جمعۃالمبارک کےخطبات میں قرآن و حدیث کا حوالہ دیکر لوگوں کو خون کے عطیات دینے کی اپیل کریں، جبکہ حکومتی سطح پر ہر سرکاری ادارے میں تمام کالجز اور یونیورسٹیز میں خون کے عطیات دینے کے حوالے سے آگاہی مہم چلائی جائے کہ خون عطیہ کرنے سے ڈونر کی صحت پر کسی نوعیت کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے مگر قیمتی زندگی بچ جاتی ہے۔ اسی لئے ’’سْندس فائونڈیشن‘‘ کالجز، یونیورسٹیز ، سرکاری دفاتر غرضیکہ ہر دروازے پر سال بھر دستک دیتی رہتی ہے اور اِس کا واحد مقصد خون کے عطیات کا حصول ہوتا ہے، تاکہ ملک بھر میں زیر علاج بچوں کی زندگی کو بچایا جاسکے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ پرائمری سطح کے تعلیمی کورس میں خون عطیہ کرنے کے حوالے سے ایک باب ہو تاکہ بچے جوان ہو کر نہ صرف خود خون عطیہ کریں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں، اگرچہ متذکرہ بیماریوں کے علاج طویل اور صبر آ زما ہیں، مگر الحمدللہ ، مخیر حضرات اور نوجوان بچے بچیوں نے اِن بیمار بچوں کی زندگی بچانے کا تہیہ کیا ہوا ہے، لہٰذا ’’سْندس فائونڈیشن‘‘کی کوشش ہے کہ خون دینےوالے جتنے زیادہ ڈونرز ہوں گے، اِس لحاظ سے زیادہ سے زیادہ اِس ’’خدمت خلق‘‘کو وسیع کیا جاسکتا ہے۔

(صاحب تحریر سندس فائونڈیشن کے بانی و صدر ہیں)

تازہ ترین