• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ برسوں میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے معافی کے نظام کی ساکھ بہت خراب ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں امریکی آئین کا آرٹیکل II، سیکشن 2، کلاز 1امریکی صدر کو بنیادی طور پر لامحدود اختیار دیتا ہے۔ اسے مواخذے کے معاملات کے سوا ریاست کے خلاف جرائم پر رعایتیں دینے اور معافی دینے کا اختیار حاصل ہے۔ تاہم اس متنازعہ نوعیت سے آگاہ رہتے ہوئے کہ مجرمانہ الزامات کا سامنا کرنے والے کس شخص کو رہا کیا جانا چاہیے اور کسے نہیں، عموماً صدر اس اختیار کو اپنی مدت کے آخری دنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ نومبر کے صدارتی انتخاب اور جنوری میں نئے صدر کے حلف اٹھانے کے درمیان 10ہفتے ہوتے ہیں، جب موجودہ صدر یا تو انتخاب ہار چکا ہوتا ہے، یا ریٹائرمنٹ کی طرف جا رہا ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اسے دوبارہ انتخاب کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ اس طرح صدر کے قلم کی ایک جنبش سے ایک طویل قانونی عمل کو ختم کر دیا جاتا ہے ۔ سابق صدر جو بائیڈن نے ایسا ہی کیا، اور اپنے آخری دنوں میں تاریخ کے کسی بھی دوسرے چیف ایگزیکٹو سے زیادہ سزاؤں میں تخفیف کی۔انہوں نے سزائے موت کے تقریبا ًتمام وفاقی قیدیوں کو رہا کر دیا، 40میں سے 37سزایافتہ قیدیوں کی سزاؤں میں تخفیف کی۔ لیکن انہوں نے سب سے زیادہ اختلاف رائے اس وقت پیدا کیا جب انہوں نے اپنے بیٹے ہنٹر کی سزاؤں کو کالعدم قرار دیا، اور پھر پہلے سے ہی اپنے خاندان کے دیگر افراد کو ان جرائم کیلئے معاف کر دیا جن کیلئے ان پر شاید کبھی مقدمہ بھی نہ چلتا۔ یہ عمل اقربا پروری سے آلودہ تھا کہ انہوں نے اپنے آئینی اختیار کو اپنے قریبی لوگوں کیلئے استعمال کیا۔

ان کے فوراً بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئے۔ اپنے پہلے 100 دنوں میں اپنے بہت سے اقدامات کی طرح، ٹرمپ ایسے کام کر رہے ہیں جیسے انکے پاس وقت ختم ہو رہا ہو۔ انہوں نے ابھی اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہی تھا کہ2021میں کیپٹل ہل پر پرتشدد حملے میں بغاوت کے قصوروار قرار دئیے جانیوالے 1600افراد کو معافی دے دی۔ یقیناً، اس نے کچھ لوگوں میں غم و غصے کو جنم دیا اور کیپٹل پولیس کے سربراہ نے اسے اپنے تمام افسران کے ’’منہ پر طمانچہ‘‘ قرار دیا تھا۔ ٹرمپ نے اسکے بعد سے معافیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان ہیریسن فیلڈز نے ایک بیان میں کہا کہ ٹرمپ مستحق امریکیوں کو دوسرا موقع دینے میں ہمیشہ خوشی محسوس کرتے ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کو جنہیں غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا گیا اور ایک غیر منصفانہ نظامِ انصاف کے ذریعے ضرورت سے زیادہ مقدمات چلائے گئے۔ اصولی طور پریہ بات بہت مناسب ہے، لیکن اس غلطی پر افسوس یاشرمندگی کے ساتھ مداوا بھی ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس، اس ہفتے، انہوں نے سابق شیرف اسکاٹ جینکنز کو معاف کر دیا، جنہیں 2024میں کئی تاجروں کو سرکاری قانون نافذ کرنے والے ایجنٹ بنانے کے بدلے 75000ڈالر سے زیادہ رشوت لینے کا مجرم پایا گیا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل نیٹ ورک پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ شیرف اسکاٹ جینکنز، انکی اہلیہ پیٹریشیا اور ان کے خاندان کو جہنم سے گزارا گیا ہے۔ پھر بھی جینکنز کو لاکھوں دوسرے لوگوں کی طرح امریکی عدالتی نظام سے نہیں گزارا گیا تھا۔

اسی طرح ٹی وی کے رئیلٹی شو کا جوڑا، ٹوڈ اور جولی کرسلی تھے، جنہیں 2022میں جعلی بینک اسٹیٹ منٹس اور دیگر ریکارڈ جمع کروا کر بینکوں سے 36ملین ڈالر سے زیادہ کی دھوکہ دہی کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ انہوں نے اپنی ناجائز کمائی لگژری کاروں اور سفر پر خرچ کی۔تازہ ترین کیس ہے لیری ہوور کا، جو شکاگو گینگسٹر ڈسیپلز کے بدنام زمانہ بانی ہیں، جنہیں ایک حریف کے قتل کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ دیگر جرائم کی ایک طویل فہرست کا مجرم ٹھہرایا گیا تھا۔ حتی کہ گزشتہ سال ایک سماعت میں، ایک جج نے ہوور کے ایک وکیل سے پوچھا ’’وہ اور کتنے قتل کا ذمہ دار ہے؟‘‘ ٹرمپ نے انکی وفاقی سزا میں تخفیف کردی۔ صدر کے اس اقدام سے کیا حاصل ہوتا ہے اور ایسا کرنے میں صدر کا مقصد کیا تھا؟

ان معافیوں کا ایک خاص اور عجیب عنصر یہ ہے کہ سی بی ایس نیوز کی رپورٹ کے مطابق بہت سے مستفید ہونے والوں نے باقاعدہ درخواست بھی نہیں دی تھی۔ ٹرمپ نے بس خود ہی پہنچ کر کام کیا۔ کچھ معاملات میںایسا لگتا ہے کہ وہ جو کچھ ٹی وی پر دیکھتے ہیں اس پر انحصار ہے ۔ مثلاً انہوں نے کہا ہے کہ وہ 2020میں مشی گن کی ڈیموکریٹک گورنر گریچین وائٹمر کو اغوا کرنے اور ریاستی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں سزا یافتہ افراد کیلئے معافی پر غور کر رہے ہیں کیونکہ ’’میں نے ٹرائل دیکھا تھا۔ اور مجھے یہ کسی حد تک ایک یکطرفہ مقدمے کی طرح لگا...‘‘

اگرچہ کبھی کبھی لگتا ہے کہ صدر کا یہ اختیار غلط ہے یا محض من مانی، لیکن میں صدر کے رحم کے استحقاق کو ختم نہیں کرنا چاہوں گا۔ میں تمام معاملات میں دوسرے مواقع دینے کے حق میں ہوں، کیونکہ ایک معاشرے کے طور پر ہم بہت زیادہ سزا دینے والے بن گئے ہیں۔ لیکن اگر شہریوں میں عدالتی نظام کیلئے کسی بھی قسم کے احترام کو برقرار رکھنا ہے، تو اس میں ایک حد تک مستقل مزاجی ہونی چاہیے۔

درحقیقت قانونی عمل کا مطلب ہے کہ کوئی طریقہ کار موجود ہے، اور اس پر عمل کیا جانا چاہیے۔ میں نے کرسمس سے پہلے عافیہ صدیقی کے معاملے میں 76000 الفاظ پر مشتمل معافی کی ایک درخواست دائر کی تھی، جسے بائیڈن نے 20جنوری کو کسی بھی بنیاد پر توجہ دیے بغیر مسترد کر دیا ۔ ڈاکٹر عافیہ کی بے گناہی، سی آئی اے کی طرف سے ان کے بچوں کا اغوا، یہ حقیقت کہ انہیں امریکی حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، اور جنسی زیادتی جس کا وہ آج بھی جیل میں سامنا کر رہی ہیں۔ (کیا عافیہ معافی کی مستحق نہیں تھی؟)

گزشتہ ہفتے میرے معمر سابق سزائے موت کے قیدی کلیرنس اسمتھ وفاقی جیل میں انتقال کر گئے۔ ان کی ہمدردانہ رہائی سے انکار کر دیا گیا تھا حالانکہ وہ شدید بیمار تھےاور واضح طور پر بے گناہ بھی تھے انہیں اپنی اکتالیس سالہ قید میں صرف ایک تادیبی سزا دی گئی تھی جو اپنے جیل کے بستر کو وقت سے پہلے تیار کرنے کے ’گھناؤنے‘ جرم پر تھی۔

وقت آگیا ہے کہ اس بات پر نظر رکھی جائے کہ صدر کے بے پناہ اختیارات کا استعمال (یا غلط استعمال) کیسے کیا جاتا ہےاور صدر پر شفافیت کے کچھ اصول نافذ کرنے پر غور بھی کریں۔

(ارسال کردہ مظفر اعجاز)

تازہ ترین