• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ نے اسرائیل کے ذریعے ایران پر حملہ کر دیا! کسی کو حیرانی نہیں ہوئی، دہائیوں سے ایرانی انقلاب الٹانے کے لیے امریکہ اور اسرائیل نے سر دھڑ کی بازی لگا رکھی ہے۔ قسم،قسم کی سازشیں،خفیہ حملے، رجیم چینج کی کوششیں اور ہرممکن پابندیوں کے علاوہ اندر باہر کے ایرانیوں کی ذہن سازی کے لیے ڈالروں کی برسات۔ لیکن ولایت ِفقہی کے تحت قائم انقلابی نظام آج بھی قائم ہے اور دنیا کی واحد سپر پاور کو اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کے بھیانک انجام سے خائف ان کے بڑے فرزند رضا پہلوی اب امریکی خواہشات کا محور ہیں۔ ابھی دو ہفتے پہلےوہ اپنی اہلیہ سمیت اسرائیل جا کر شیطن یاہو کے آگے سرنگوں ہوچکے جبکہ ان کی بیٹی نے حال ہی میں ایک یہودی نژاد سے شادی کی ہے ۔وہ جانتے ہیں کہ ان کے والد کا ایک انٹرویو جس میں انہوں نے اسرائیل کے میڈیا پر مکمل کنٹرول کے حوالے سے مثبت میں جواب دیا تھا سے انکے زوال کا آغاز ہوا حالانکہ رضا شاہ پہلوی کا ہر فعل مغرب پرستی میں مغرب سے بھی چند قدم آگے تھا۔ ان کے دور میں دنیا کی پہلی ہم جنس پرستوں کی شادی تہران میں ہوئی جس میں ملکہ فرح دیبا نے خود شرکت کی جبکہ شراب،ڈانس کلب،ک یبرے اور جوا خانے کسینو وغیرہ عام تھے ۔ برطانیہ کی ایماء پر ایران کی کمزور قجر حکومت کا تختہ الٹا کر ؁ 1921 میں رضا خان جو فردِ واحد کی حکمرانی کا داعی تھا بادشاہ بن بیٹھا۔ اس کے دور میں اہم شخصیات کی بِلا جواز گرفتاریاں ،چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر املاک کا ضبط کرنا، علماء مشائخ سے تناؤ کھچاؤ اور خواتین سے جبری چادر و پردہ ختم کرانا جیسے گھمبیر مسائل تھے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ اور روس سے تیل کے معاہدوں کی خلاف ورزی اور جرمنی سے قربت پر برطانیہ، روس اور اتحادیوں نے ایران پر قبضہ کر لیا۔ متبادل نہ ہونے کے باعث رضا خان سے استعفی لے کر اسے جبری جلا وطن کیا گیا۔ 1944میں جنوبی افریقہ وفات پانے کے بعد ان کی میت کو مصر میں حنوط کر کے 1950 میں ایران لا کر دفنایا گیا۔ اس کے 23 سالہ بیٹے رضا شاہ پہلوی کو اسکی جگہ ایران کا بادشاہ بنایا گیا۔اس کے دور میں برطانوی اور امریکی شہریوں کو سفارتی استثناء تھاجبکہ بنیادی انسانی حقوق ختم کر دیے گئے اور"ساوک" ایرانی خفیہ ایجنسی کے ذریعے مخالفین پر ظلم و ستم ڈھائے جاتے تھے ۔ اس پر آیت اللہ خمینی کے احتجاج پر انہیں جلا وطن کر دیا گیا ۔"سفید انقلاب" کی صورت میں عورتوں کی مادر پدر آزادی، لادینیت کی ترویج ، علماء مشائخ کی جان بوجھ کر بے قدری اور ایسی زرعی اصلاحات پر زورجن سے کسان تباہ ہو گئے انقلاب کی وجوہات بنیں ۔ آیت اللہ خمینی نے جِلا وطنی میں بھی اپنے مشن کو جاری رکھا۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ایران کا انقلاب قدرتی نہیں بلکہ مغرب کے تعاون سے لایا گیا تو یہ بات درست نہیں۔ آیت اللہ خمینی نومبر 1964 میں جِلاوطن ہونے کے بعد ایک سال ترکیہ بعد ازاں 13 سال عراق میں رہے۔ صدر صدام حسین نے شاہ ایران کےدباؤ پر 1978 میں انہیں عراق سے جِلا وطن کیا تو وہ اکتوبر 1978 سے یکم فروری 79 تک فرانس میں ٹورسٹ ویزے پر مقیم رہے۔ عراق میں اپنے قیام کے دوران وہ ایرانی سیاست پر اثر انداز ہو تےرہے لٰہذا عراق سے جِلا وطنی پرفرانس بلا کر فرانس نے انہیں ایران سے دور رکھنے کی کوشش کی لیکن وہاں کے آزاد معاشرے نے ان کے مشن کو جِلا بخشی اور انٹرویوز اور میڈیا کے ذریعے اپنا پیغام ایرانی عوام تک پہنچانے میں انہیں بہت مدد حاصل ہوئی۔ اکتوبر 1977ے ایران کے حالات تیزی سے بگڑنے شروع ہوئے تو آیت اللہ خمینی کے فرانس سے ایرانی عوام تک پیغامات نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور بالآخر 16 جنوری 1979 کو شاہ ایران حکومت کی باگ ڈور اپنے وزیراعظم شاہپور بختیار کے حوالے کر کے ملک سے فرار ہو گیا۔ آیت اللہ کا عوام کی دعوت پر 26جنوری 1979 کو آنے کا پروگرام وزیراعظم کے حکم پر تمام ہوائی اڈے بند کرنے کے باعث ملتوی ہو گیا لیکن شدید عوامی احتجاج و 28 ہلاکتوں کے باعث یکم فروری کو ان کا جہاز اترنے دیا گیا اور یوں وہ عوامی امنگوں وجذبات کے سیلِ رواں کے نتیجے میں ، دہائیوں کے ظلم و جبر اور چیرہ دستیوں، لادینیت و بے راہ روی سے تنگ عوام کے نجات دہندہ بن گئے۔


ایرانی انقلاب تو عام لوگوں کے دلوں کی آواز تھا لیکن مادر پدر آزاد اور مراعات یافتہ طبقہ اس اسلامی انقلاب کے ساتھ نہیں چل سکتا تھا وہ خود ساختہ جِلا وطنی اختیار کر گئے۔ اسی لیے انقلاب کو 46 سال گزرنے کے باوجود انہیں ولایتِ فقہی نامنظور ہے اور وہ پرانے دور کی نشاطِ ثانیہ کے خواہاں ہیں۔ انہی کی امریکہ اور دیگر ممالک کے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی ہے جدھر سے وہ ایرانی انقلاب کے خلاف اربوں ڈالر مختص کرواتے ہیں۔ 2022میں اچانک زیرِ زمین تحریک "مہاسہ امینی" کی موت پر زور پکڑ لیتی ہے تو کبھی اسرائیل ایران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو شہید کر دیتا ہے۔ کبھی ہندوستان کے ذریعے خلوص اور محبت کے زیرِ اثر گوادر کے مقابلے میں ایران ہندوستان کو چاہ بہار بندرگاہ 10 سال کے ٹھیکے پر دیتا ہے۔ درحقیقت ہندوستان کی خفیہ ایجنسی’’را‘‘ نے اسماعیل ہنیہ کے خلاف جال بچھایا تھا اور اب 13 جون کے تازہ حملے کی اسرائیل نے فخریہ ویڈیو جاری کی کہ کیسے ان کا ایران میں ڈرون اڈہ تھا جہاں سے کامیاب حملہ کیا گیا۔ اسرائیل کا ایران کے اندر ایسی جگہ حاصل کرنا سوائے ہندوستانی معاونت کے ممکن نہیں۔" بغل میں چھری منہ میں رام رام" والوں نے ایرانی اہلکار انتہائی چالاکی سے رام کیے ہیں ۔ ہندوستان اسرائیل تعلقات اور ایران پر اسرائیلی حملوں پر "موذی" کا منفی رویہ ، ہندوستانی میڈیا کے طعن و تشن ایرانیوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں، انہیں ہندوستان سے تعلقات کا از سرِنو جائزہ لینا چاہئے۔ ایران کی پاکستان سے متصل سرحد سے ہندوستان پاکستان میں عرصہ دراز سے دہشت گردی کروا رہا ہے، غالب گمان ہے کہ ایران میں دہشت گردی کے واقعات اسی دوست نما دشمن کی کارکردگی ہو ۔

آج اسلامی دنیا کی بے حسی اور سرد مہری پر چاہے وہ مسئلہ فلسطین ہو یا کشمیر، لبنان پر اسرائیلی حملے یا عراق و یمن کی مشکلات، سب کیلئے ایران پیش پیش ہے۔ اگر خدانخواستہ ایران کو شکست اور رجیم چینج ہو جائے تو اگلی باری پاکستان کی ہو گی ۔ اُمّت کی بقاء کا بوجھ اب تمام مسلمان ممالک سمیت ایران پر آن پڑا ہے۔اس مسئلے سے کامیابی سے نبرد آزما ہونے کے لیے شیعہ سنی مسلکی جھگڑوں سے نکل کر تمام مسلمان ممالک کو متحد ہو کر ایران کی عسکری، سفارتی، سیاسی ہر محاذ پر مدد کرنی چاہیے اور اپنی بقاء و سلامتی کے لئے ایران سمیت جتنے مسلمان ممالک ممکن ہوں جوہری صلاحیت حاصل کریں۔(جاری ہے)۔

تازہ ترین