• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ محمد اظہار الحق کو جانتے ہیں؟ اگر آپ جنریشن زی عرف ففتھ جنریشن ہائبرڈ وار فیئر کے تربیت یافتہ مجاہد ہیں تو آپ سے یہ توقع رکھنا محل نظر ہے۔ جس زفافی لشکر کی صف بردار بچیاں سہیل وڑائچ سےگفتگو کے آداب نہیں جانتیں، ان کے فرشتوں کو محمد اظہار الحق سے تعارف نہیں ہو سکتا۔ فرشتوں کو خبر ہونا ایک محاورہ ہے۔ زمینی فرشتے اسے اپنے قبیلے پر انگشت نمائی خیال مت فرمائیں۔ محمد اظہار الحق 14فروری 1948 کو فتح جنگ میں پیدا ہوئے۔ جس عمر میں بچے کانچ کی گولیاں کھیلتے ہیں، اظہار الحق اپنے بزرگوں سے حافظ شیرازی، جامی، نظامی اور سعدی کا درس لیتے تھے اور عربی زبان کی تحصیل کرتے تھے۔ امتیازی حیثیت سے تعلیمی منزلیں مارتے رہے۔ ساٹھ کی دہائی کے آخری برسوں میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا۔ 1973میں پاکستان سول سروس میں شامل ہوئے۔ 2008میں سبک دوشی تک کن اعلیٰ ترین حساس عہدوں پر فائز رہے، ان کا ذکر چشم حسود پر گراں گزرے گا۔ علاوہ ازیں محمد اظہار الحق میں اضافی خامیاں بھی ہیں۔ درجہ اول کے شاعر ہیں۔ 1982میں پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ پانچ شعری مجموعوں کے علاوہ کلیات بھی شائع ہو چکی۔ اردو غزل کو ایسا نادر لحن عطا کیا ہے جس میں وسط ایشیا کے بسیط میدانوں، پھولوں سے لدی گلیوں اور بلندو بالا محرابوں کا زیر تہ احساس بھی ہے اور سطح مرتفع پوٹھوہار کی جھاڑیوں کا زیر و بم بھی اپنی بہار دیتا ہے۔تیس برس سے اخباری کالم لکھ رہے ہیں۔ کالم بھی ایسا کہ حسن طلب سے خالی اور حسن اظہار کا نمونہ کہیے۔ درویش کو کچھ ہفتے گزرے قبلہ سے شرف مکالمہ نصیب ہوا۔

حسب معمول انٹرویو کا آڈیو سن رہا تھا۔ مشرقی پاکستان کے بارے میں ایک سوال پر اظہار صاحب نےکچھ ایسا چمک کر سچ بیان کیا کہ قریب بیٹھی تنویر جہاں نے فوراً رائے دی کہ ٹیلی ویژن ایسے دوٹوک اور مدلل اظہار کامتحمل نہیں ہو گا۔ درویش تو مدت سے مدیرانِ نشر و اشاعت کی ژرف نگاہی کا قتیل ہے۔ یہ سوچ کر خاموش رہتا ہے کہ ہمارا کام لکھنا ہے اور اس کے ابلاغ کا فیصلہ اصحاب بالانشین کا اختیار ہے۔ آج جو بیان روک لیا جائے گا، تاریخ خود عیاں کر دے گی۔ مغربی پاکستان کے اخبارات کی فائل متعلقہ 1971اٹھا کر دیکھئے۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا، پدما کی موجوں میں اضطراب کی کوئی خبر نہیں تھی۔ جولائی 1977سے اپریل1979 تک بھٹو صاحب کی کردار کشی کی کہانیاں دیکھ جائیے۔ آج عدالت عظمیٰ تسلیم کرتی ہے کہ محمد احمد خان قتل مقدمے میں ملزم کو انصاف نہیں ملا۔ ہم فرقہ ملامتیہ کے خاک نشین آواز اٹھاتے رہے کہ افغان جہاد آمریت کی طوالت کا حیلہ ہے اور اس دوران صاحبان جبہ و عمامہ کو جو اختیار سونپا جائے گا، وہ بالآخر ریاستی بندوبست کی سیاسی، تمدنی، انتظامی اور علمی بنیادیں ہلا دے گا۔ نصف صدی تک کسی کو خاک آلود آنکھوں کے گریہ بے آواز کا گوش سماعت نہیں تھا۔آج گزرے ہوئے دنوں کا اثاث البیت فتنہ الخوارج قرار پایا ہے۔ کچھ حرج نہیں ہوا سوائے فیض احمد فیض کی پیش بینی کے، ’کفِ باغباں پہ بہارگل کا ہے قرض پہلے سے بیشتر‘۔ اٹھارہ برس قبل جس خچر پر اسپ تیز گام کی زین رکھی تھی، اب اس کا نام لینا ممنوع قرار پایا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عدالت سے ’صادق اور امین‘ قرار پانے والے ہی میں پانچوں شرعی عیب نہیں تھے، اس کے حاشیہ نشین بھی محمد شاہ رنگیلے کے درباری تھے۔ بھائی، درویش ان معاملات سے فاصلہ رکھتا ہے۔ آپ کی نگہ انتخاب کا کچھ بھروسہ نہیں۔ شب نگاراں میں کچھ اور فرماتے ہیں اور صبح کی پہلی کرن کے ساتھ آپ کی رائے بدل جاتی ہے۔ آپ کا جادہ خوش گام ریگ سیماب پر نقش قدم بناتا ہے۔

ذکر تھا ہمارے محمد اظہار الحق صاحب کا جن کا دعویٰ ہے کہ ’میں وہم بیچتا ہوں، وسوسے بناتا ہوں / ستارے دیکھتا ہوں، زائچے بناتا ہوں‘۔ مگر اس بار اظہار صاحب کو زائچہ بنانا تو ایک طرف، تاریخ کی باز آفرینی کا اذن بھی نہیں ملا۔ ٹیلی ویژن کے متعلقہ اہلکار نے عین وہی جملے حذف کیے جہاں اظہار صاحب نے ذاتی مشاہدے، دلیل اور اعداد و شمار سے حقیقت کے پردے پر انگشت باخبر سے محض ایک شکن پیدا کی تھی، وہ اک نگہ کہ بہ ظاہر نگاہ سے کم ہے۔ اچھا موقع ہے، سلیم احمد کو یاد کر لیا جائے۔سلیم احمد قیام پاکستان کے بعد سامنے آنے والی جدید اردو غزل کی صف اول سے تعلق رکھتے تھے۔ اتفاق سے سطور بالا میں اظہار الحق صاحب کا جو شعر مقتبس کیا ہے سلیم احمد نے بھی یہ مضمون باندھ رکھا ہے۔ ’ غنیم وقت کے حملے کا مجھ کو خوف رہتا ہے/ میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں‘۔ سلیم احمد نے شاعر اور لکھنے والے کا منصب کس بلاغت سے بیان کیا ۔ حتمی تجزیے میں لکھنے والے کے پاس بندوق تو نہیں ہے، ایک کلک خوش نظر ہی تو ہے۔ شاعر وقت کی لہریں پڑھتا ہے اور زیر آب طوفانی دھارو ں کی خبر رکھتا ہے۔ خبرونظر کے اس کھیل میں وہ کچھ وسوسے پالتا ہے ۔ زائچے بناتا ہے جن کے بیان سے تخت نشیں جزبز ہوتے ہیں۔ یہ تو وقت ہی بتاتا ہے کہ لکھنے والے کی آنکھ میں بصیرت تھی یا محض وہم اور وسوسے کا روزگار۔ متمدن معاشرہ لکھنے والے کے قلم پر زنجیر نہیں ڈالتا۔ اگر قلم کار کے تجزیے میں سچائی ہے تو وہ قوم کے لیے مفید ہے اور اگر بے پر کی اڑاتا ہے توپڑھنے والا لکھنے والے سے کہیں زیادہ ذہین ہے۔ وہ لکھنے والے کے زاویہ بیان کو بھی سمجھتا ہے اور بین السطور پنہاں مفاد بھی دیکھ سکتا ہے۔ لکھنے والے کو تو بہرصورت لکھنا ہے۔ خیام نے صدیوں پہلے یہی کہا تھا کہ لکھنے والی انگلی لکھتی ہے اور آگے بڑھ جاتی ہے۔ لکھنے والے کی انگلی کاٹنے سے تاریخ کا قافلہ اپنا رخ تبدیل نہیں کرتا۔ شاعر اور ادیب تو آب رواں پر بنتے مٹتے نقش اور بادوباراں کے ہلکورے پڑھ لیتے ہیں۔ کالم نویس تو محض قلم گھسیٹ ہرکارہ ہے۔ اسے کالم لکھنا ہے اور بوجوہ لکھنا ہے۔

تازہ ترین