برطانیہ کی جسٹس سیکرٹری اور لارڈ چانسلر شبانہ محمود نے کہا ہے کہ یورپی انسانی حقوق کنونشن (ای سی ایچ آر) کو وقت کے تقاضوں اور عوامی توقعات کے مطابق ڈھالنا ضروری ہو گیا ہے تاکہ قانون کی حکمرانی پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔
یورپی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کنونشن صرف ماضی کا ورثہ نہیں، بلکہ ایک زندہ دستاویز ہے، جسے بدلے ہوئے عالمی حالات کے مطابق مسلسل ارتقاء کی ضرورت ہے۔ برطانیہ کنونشن کا بانی بھی ہے اور پرعزم ساتھی بھی۔
شبانہ محمود نے اسٹرابورگ کو یورپ کے جنگ کے بعد کے وعدے کی علامت قرار دیا جہاں آزادی، وقار اور قانون کی حکمرانی کو محض خواب نہیں بلکہ حق بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ نہ صرف یورپی کونسل کا بانی رکن ہے بلکہ انسانی حقوق کے کنونشن کے مسودے میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ ہم آج بھی اس وعدے پر قائم ہیں، لیکن عزم کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خود پر مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں۔
لارڈ چانسلر نے خبردار کیا کہ پورے یورپ میں قانون کی حکمرانی پر اعتماد کمزور ہو رہا ہے۔ بعض اوقات انسانی حقوق کو مجرموں کے تحفظ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جبکہ قانون کا مقصد معاشرے کے اصولوں کا تحفظ ہونا چاہیے۔
انہوں نے دو اہم برطانوی مثالیں پیش کیں۔ غیر ملکی مجرموں کا خاندانی زندگی کا بہانہ بنا کر ملک بدری سے بچنا۔ خطرناک قیدیوں کا اپنے قید کے حالات کو چیلنج کرنا، عوامی تحفظ کے خلاف ہے۔ انسانی حقوق اور انصاف کا توازن ضروری ہے۔
لارڈ چانسلر شبانہ محمود نے کہا کہ انسانی حقوق عوام کی نظروں میں منصفانہ اور معقول محسوس ہونے چاہئیں۔ جب حقوق عوامی مفاد کے خلاف یا انصاف کے برخلاف محسوس ہوں، تو عوامی اعتماد مجروح ہوتا ہے اور پاپولسٹ عناصر فائدہ اٹھاتے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ برطانیہ انسانی حقوق کی مخالفت نہیں کر رہا، بلکہ کنونشن کو موثر اور متوازن بنانے کیلئے داخلی اصلاحات لا رہا ہے، خاص طور پر آرٹیکل 8 (حق برائے خاندانی زندگی) سے متعلق قوانین کو واضح کیا جا رہا ہے۔
آخر میں انہوں نے تمام یورپی رکن ممالک کے رہنمائوں پر زور دیا کہ کنونشن کی افادیت برقرار رکھنے کیلئے مل کر اصلاحات کی کوششیں کی جائیں تاکہ یہ نظام موجودہ دور کے چیلنجز سے ہم آہنگ ہو سکے۔