قارئین کرام جدیدیت DIFFUSION OF INNOVATION یعنی ایجادات ، خصوصاً اختراعات کے پھیلائو کے کل عمل میں ذرائع ابلاغ عامہ اپنے ناگزیر ابلاغ تعاون سے انجن کا کام کرتے ہیں۔ قومی یا انٹرنیشنل جرنلزم میں خبرپیشہ صحافت کا مرکز و محور ہے باقی تمام اصناف صحافت اسی صنف صحافت (خبر) سے جینریٹ (بنتی) ہوتی ہیں۔ صحافت اور سوسائٹی لازم و ملزوم ہیں عوام الناس یا اس کے کسی بڑے مخصوص طبقے میں حالات حاضرہ سے متعلق تجسس، عوامی مفاد سے متعلق اہمیت و حساسیت اور دلچسپی، انسانی فطری جبلت کے وہ عناصر ہیں جن کی آمیزش نے پیشہ صحافت کو ارتقاء پذیر انسانی معاشرے کا لازمہ بنا کر ارتقائی عمل کو تیز تر کر دیا یوں صحافت معاشرےکی جملہ اہم ترین ضرورتیں جیسے حالات حاضرہ بارے تجسس کو کم و ختم کرنا حالات کی اہمیت کو سمجھنا حساسیت پر سوسائٹی اور اس کے منیجرز کو الرٹ کرنا اور عمومی دلچسپی کا سامان بشمول تفریح عامہ مہیا کرنا پیشہ صحافت کا اہم ترین اور حقیقی کردار کی عملی شکل ہے ۔ اس سارے عمل میں ’’خبر‘‘ کلیدی صنف صحافت ہے مثلاً جنگ کا ہونا، اس کی عارضی بندش، اس پر مذاکرات، ان کی کامیابی اور ناکامی جنگ کا مکمل بند ہونا اور بعداز جنگ معمول کی صورتحال اور امن کی بحالی کی جملہ تفصیلات سب خبر ہے اس بارے عوام الناس کا جاننا خوراک پانی جتنی نہیں تو اولین چار پانچ ضرورتوں میں سے ایک ہے اس کا آغاز کسی واقعہ (خبر) سے ہی جینریٹ ہو کر سوسائٹی تک پہنچتا ہے سیاسی تناظر میں قوم کے تجسس کی بے چینی (شدید انتظار) کی شکل میں ہوتا ہے پیشہ صحافت سے منسلک NEWS GATHERER(رپورٹر) واقعہ کے جملہ حقائق تک پہنچ کر عوامی تجسس یا کچھ پیش منظر میں عوامی ضرورت و اہمیت و دلچسپی ہونے پر تجسس کو کم و ختم کرنے یا مطلع کرنے کیلئے خبریں جمع کرکے سوسائٹی کو تیزی و تواتر سے ڈلیور کرنے کا پیشہ ورانہ فریضہ انجام دیتا ہے گویا میڈیا آرگنائزیشن ان خبروں کو اہتمام سے پیش کرنے کا عوامی خدمات کے بڑے اہم اور حساس اداروں میں سے ایک ہے ۔
ذہن نشین رہے ’’خبر‘‘ عوام الناس پر آشکار و بے نقاب ہوتے ہی یہ سب ہی اصناف صحافت کو INVOC(پکارتی) کرتی ہے ،اداریہ نویسی ،ٹاک شوز، تجزیہ نگاری کے مندرجات رائے سازی کے حوالے سے راقم الحروف کی رائے میں خبر کے بعد دوسری اہم ترین صحافتی صنف ہے جو ادارتی صفحہ اور ٹاک شوز پوری کرتے ہیں۔رائے سازی کسی بھی ذریعہ ابلاغ، پرنٹ یا الیکٹرانک یا کسی اور سے ہو رہا ہو اس کا اصل اور بڑا ماخذ ادارتی صفحہ اور ٹاک شو ہی ہے جو خبروں کی آشکاری اور بے نقابی ہر دو کی عوامی ضرورت پوری ہونے کے بعد کا فالواپ ہے اس کے تجزیوں کے ذریعے ہی رائے سازی جیسا پاور فل اورحساس پیشہ ورانہ کام انجام پاتا ہے ۔ملکوں کا قیام، تنازعات کی تباہ کن تفصیلات ناکام ریاستوں کا خاتمہ نئی کی تشکیل صحافتی دنیا میں سوسائٹی کے تجسس، اطلاع، اہمیت و حساسیت کے حوالے سے اعلیٰ اقدار کی اہم ترین خبر سازی ہیں یہ بڑی نیوز بریکنگ و میکنگ کا سبب بنتی ہیں جس کی فیکٹری میڈیا ہے۔ واضح رہے حالات حاضرہ میں جب تک کسی بڑے واقعہ کی تفصیلات کھل کھلا کر عوام الناس تک نہ آئیں اور عوامی تجسس اس کی ادھوری اور اہم مصدقہ خبریں قومی اہمیت کی خبر کو مکمل واضح( بطور حتمی اطلاع) نہ کر پائیں تو یہ پیشہ جرنلزم کے لئے بڑا چیلنج بن جاتا ہے یہیں سے میڈیا اور اس کے سب سے محرک پیشہ ور نیوز رپورٹر کی اہلیت و ساکھ اور پروفیشنلزم کا امتحان شروع ہوتا ہے کسی کی کتنی، کسی درجے پر ؟اس کا فیصلہ عوام الناس اپنے رسپانس اور ڈلیورڈ کمیونیکیشن پراڈکٹ (خبر، اداریہ، ٹاک شو، کالم، انٹرویو، فیچر، تصویر، فوٹیج، کارٹون وغیرہ) کی اثر پذیری سے ہوتا ہے۔ سال بھر میں چند ہی خبریں ایسی بریک ہوتی ہیں جو بین الاقوامی اور قومی سطح پر تمام تر اور ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ اعلیٰ قدر اور بے پناہ اثر کی حامل ہوں ایسی ہی خبریں قابل قدر فالو اپ کے لئے اندر کے حقائق پر مبنی (دلچسپ) خبر بنانے کا چیلنج میڈیا آرگنائزیشنز اور نیوز رپورٹرز کو دیتی ہیں خاکسار بطور طالب علم و معلم صحافت ایسی اعلیٰ درجے کی خبر کو صحافتی لٹریچر میں شامل کرنے کے لئے بذریعہ ’’آئین نو‘‘ خبر انگیز ’’خبر‘‘ واقعہ کے ایک لفظ کے ساتھ ملا کر جیسے خبر انگیزلنچ کا نام دے رہا ہے جبکہ اسے انگریزی میں EXCITING NEWSکا نام (اصطلاح کے طور دے رہا ہے) ایسی خبر سازی ایڈوانس نیوز رپورٹنگ کے زمرے میں آئے گی پیشہ صحافت کی اصناف کے حوالے سے گزشتہ روز امریکی مرکز اقتدار وائٹ ہائوس میں ہونے والے اس غیر روایتی تاریخی ظہرانے کی بریکنگ نیوز ،رائے سازی پر چوکس بطور کالم نگار ’’آئین نو‘‘ کے جاری موضوع پر پیشہ ورانہ انہماک کا باعث بنی۔حالیہ پاک بھارت مختصر مگر جنوبی ایشیائی خطے پر پاکستان کی واضح عسکری برتری قائم کرنے والی جنگ پھر ایک ماہ بعد ہی اسرائیل کی ایران پر برہنہ جارحیت جس میں ایران کے سینکڑوں شہری، انتہائی قیمتی سائنس دان اور جرنیل شہید ہوئے،ایران کے دنیا کو حیران کردینے والے جوابی وار نے اسرائیل کے شہرہ آفاق اسٹیٹس ’’ناقابل تسخیر‘‘ کو چکنا چور کر دیا ۔اس گمبھیر تناظر اور خبرانگیز تناظر میں امریکی صدر ٹرمپ کا پاک بھارت جنگ بندی کیلئے ان کی اپیل پر پاکستان کے تعاون کا شکریہ اور اسلام آباد کی اہمیت و حیثیت کے تواتر سے اعتراف و تعریف کے پس منظر کے ساتھ مغربی ایشیا کے شدید جنگی ماحول میں پاکستانی چیف آف اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی 45منٹ کی سکیجوئلڈ ملاقات کا سوا دو گھنٹے میں تبدیل ہو جانا بہت خبر انگیز ہے۔ لنچ میں امریکی وزیر دفاع اور صدر ٹرمپ کے چار پانچ اہم ترین اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی معیت میں چیئرمین نیشنل سیکورٹی کونسل اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل آصف ملک کی موجودگی بہت معنی خیز اور صحافتی حلقوں اور پاکستانی عوام کے لئے گہرے تجسس دلچسپی اور اہمیت کے حوالے سے اہم ترین ہے ۔اسی طرح صحافیوں کے لئے چیلنجنگ کہ وہ ڈیپ نیوز نکالتے بتاتے عوام الناس کا فطری تجسس کم و ختم کریں لیکن یہ خبر انگیز تادم نکلے ابتدائی حقائق کے بعد صحافیوں کےلئے بہت چیلنجنگ ہے ۔
صدر ٹرمپ تو اپنی میڈیا سے مختصر گفتگو میں لنچ کی وجہ پاکستان کے جنگ بندی میں تعاون کے شکریے اس کے ایک اسمارٹ ملک ہونے اور فیلڈ مارشل صاحب کی اسٹرانگ لیڈر شپ کے اعتراف سے آگے نہیں گئے لیکن صحافیوں کی پیشہ ورانہ بے چینی اور عوامی تجسس کا بلند درجہ دسیوں سوالوں کے ساتھ برقرار ہے۔ آئی ایس پی آر کا 9پیروں پر مشتمل اعلامیہ اپنی جگہ اسمارٹ لیکن اس سے ڈیپ خبر کی پیاس تونہیں بجھےگی۔ صدر ٹرمپ کے ایران بارے پاکستان کا انفارمیشن رچ ہونے کا اعتراف نے سارا رخ ہی ایران ، اسرائیل جنگ کے حوالے سے پاکستان کے امکانی کردار کے آپشنز کی طرف موڑ دیا ہے بہرحال یہ واشنگٹن اور اسلام آباد بیسڈ صحافیوں کے حوالے سے خصوصاً چیلنجنگ ہے۔ عوام کا تجسس و دلچسپی مکمل قدرتی اورصحافیوں کو آشکاری اور بے نقابی کا چیلنج اپنی جگہ برقرار ہے ۔