• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا وفاقی بجٹ برائے مالی سال 2024-25کو ایک اختتامی مرحلہ نہیں، بلکہ ایک طویل اور دشوار سفر کے اہم سنگ میل کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ ایسا سفر جو ایک بہتر ، مستحکم اور منصفانہ معیشت کی تشکیل کی طرف لے جائے گا۔ اگرچہ پاکستان نے ڈیفالٹ کے خطرے سے ، جو دو سال قبل سری لنکا جیسے بحران سے مماثلت رکھتا تھا، خود کو بچالیا ہے، مگر اب ملک ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ آج کا چیلنج صرف استحکام نہیں ، جو بڑی حد تک حاصل ہو چکا ہے، بلکہ اصلاحات پر مبنی، جامع اور پائیدار ترقی کی طرف پیش قدمی ہے۔

گزشتہ دو سال کی مالیاتی سختیوں نے معیشت میں نظم و ضبط کی بحالی کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ لیکن کفایت شعاری مستقل حکمت عملی نہیں بن سکتی۔ اب وقت ہے کہ پاکستان بحرانوں کے فوری انتظام سے نکل کر ایک طویل المدتی وژن کی طرف جائے جو مسابقت، پیداواری صلاحیت ، اور ادارہ جاتی بحالی پر مبنی ہو۔

اس وژن کا مرکز ملک کے دیرینہ غیر پائیدار معاشی نمو کے چکروں، تیزی سے ترقی اور پھر زوال سے چھٹکارا ہے۔ یہ چکر صنعتی صلاحیت کو کمزور کرتا رہا ہے، سرمایہ کاری کے رجحانات کو بگاڑ تا رہا ہےاور پالیسی کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا رہا ہے۔ مالی سال 25 کا بجٹ اس چکر کو توڑنے کا ایک موقع ہے بشر طیکہ اس میں موجود اقدامات کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے۔

برآمدات پر توجہ درآمدات پر انحصار کا خاتمہ: بجٹ کی اصلاحات میں سے ایک اہم قدم محصولات کو حقیقت پسندانہ بنانا ہے۔ خصوصاً 200 ارب روپے مالیت کی اضافی کسٹمز اور ریگولیٹری ڈیوٹیز میں کمی یا خاتمہ۔ یہ محض ریونیو میں کمی نہیں بلکہ برآمدات کے نظام میں سرمایہ کاری ہے۔ ماضی میں بلند لاگت اور حفاظتی محصولات نے ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹس کے فروغ کو روکے رکھا۔در میانی خام مال کی درآمدات کی لاگت کو کم کر کے یہ قدم صنعتی زوال کو روک سکتا ہے، پیداواری سر گرمی کو فروغ دے سکتا ہے اور SMEs کو عالمی سپلائی چین کا حصہ بنا سکتا ہے۔ یہ تبدیلی فوری نہیں ہو گی، مگر پیداواری صلاحیت کے فروغ کیلئے ضروری ہے۔

نیشنل فیسکل پیکٹ:ایک اہم لیکن کم توجہ حاصل کرنیوالی پیش رفت گزشتہ سال نیشنل فیسکل پیکٹ (NFP) کا معاہدہ ہے جو وفاق اور صوبوں کے درمیان اخراجات کی ذمہ داریوں اور ٹیکس کے اختیارات کی از سر نو تقسیم پر مبنی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد پہلی بار آئینی اختیارات کو عملی خود مختاری میں بدلنے کی سنجیدہ کوشش دیکھنے میں آئی ہے۔

صحت، تعلیم اور ترقیاتی منصوبوں کی ذمہ داریوں کی صوبوں کو منتقلی کے دور رس اثرات ہونگے۔ وفاقی بجٹ ان شعبوں میں کمزور دکھائی دیتا ہے، لیکن اگر صوبائی بجٹ بھی شامل کیے جائیں تو ایک مکمل تصویر بنتی ہے۔ تاہم اسکے لیے کار کردگی پر مبنی فنڈ نگ ، شفافیت، اور اسکل امپیکٹ بانڈ جیسے نئے طریقوں کو اپنانا ہو گا۔

زرعی آمدنی پر ٹیکس:سب سے اہم مگر خاموش اصلاح وہ ہے جس کے تحت صوبوں نے ستمبر 2025 سے زرعی آمدنی پر مؤثر ٹیکس عائد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ شعبہ طویل عرصے سے دولت پیدا کرنے کے باوجود ٹیکس کے دائرے سے باہر رہا ہے۔ نئی قانون سازی علامتی اقدامات کے خاتمے کا اشارہ ہے۔ اگر دیانتداری سے نافذ کیا گیا تو یہ ٹیکس کے نظام میں برابری کی طرف ایک تاریخی قدم ہو گا۔یہ صرف آمدنی بڑھانے کا معاملہ نہیں بلکہ یہ اقدام سماجی انصاف، اعتماد کی بحالی، اور تنخواہ دار طبقے کے دیرینہ شکووں کے ازالے کی طرف پیش رفت ہے۔

رئیل اسٹیٹ اور ریٹیل کے شعبے میں مواقع کا ضیاع:ان اصلاحات کے باوجود بجٹ میں چند اہم اور غیر منصفانہ پہلوؤں پر ہاتھ ڈالنے میں ناکامی رہی۔ رئیل اسٹیٹ اب بھی بے شمار غیر دستاویزی دولت کا ذخیرہ ہے، جبکہ ریٹیل اور تجارتی معیشت کا بڑا حصہ غیر دستاویزی ہے۔ ان شعبوں پر کارروائی کے بغیر پاکستان کا ٹیکس نظام غیر منصفانہ اور کمزور رہے گا۔

با معنیٰ اصلاح کا آغاز ان مراعات کا خاتمہ اور ان سوراخوں کو بند کرنے سے ہونا چاہیے جن سے صاحب ثروت طبقے ٹیکس سے بچ نکلتے ہیں۔ پہلے سے ٹیکس دینے والے شعبوں خاص طور پر بینکاری جیسے منظم اداروں پر مزید بوجھ ڈالنا معیشت میں بگاڑ پیدا کرتا ہے۔

منصفانہ اور مساوی ٹیکس کا مقدمہ:بینکاری کے شعبے کا معاملہ خاص توجہ کا متقاضی ہے۔ اگرچہ بینکوں کو اپنا منصفانہ حصہ دینا چاہیے، مگر انہیں محض آسان ہدف کے طور پر نہیں لینا چاہیے۔ یہ شعبہSMEs ، ہاؤسنگ اور مالی شمولیت میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ جیسے ٹیرف پالیسی میں طویل المدتی سوچ اپنائی گئی، ویسے ہی ٹیکس پالیسی میں بھی ایسا ہونا چاہیے۔پاکستان کے ٹیکس نظام کو نہ صرف مؤثر اور مضبوط بلکہ منصفانہ اور مستقبل بین بنانا ہو گا جو ٹیکس دہندگان کو انعام دے ، دائرہ وسیع کرے اور بوجھ کو مساوی تقسیم کرے۔

ڈیجیٹلائزیشن اور دستاویزی معیشت:ٹیکس میں وسعت اور پیداواری صلاحیت بڑھانے کیلئے جارحانہ ڈیجیٹلائزیشن ناگزیر ہے۔ ای انوائسنگ، ڈیجیٹل ادائیگیاں، پوائنٹ آف سیل مانیٹرنگ، اور مربوط ڈیٹا سسٹمز سے عملدرآمد بہتر اور بد عنوانی کم کی جاسکتی ہے۔ ہدف یہ ہونا چاہیے کہ غیر رسمی معیشت کو رسمی نظام میں شامل کیا جائے اور یہ اتنا آسان بنادیا جائے کہ باہر رہنے کی نسبت اندر آنا بہتر ہو۔SMEs اور برآمد کنندگان کیلئے ڈیجیٹل انضمام مسابقت بڑھانے ، رسد کو ہموار کرنے ، لاگت کم کرنے اور ٹریڈ فنانس میں مددگار ہو گا۔

انسانی سرمایہ اور ماحولیاتی تحفظ :معاشی اصلاحات کے علاوہ پاکستان کی پائیدار ترقی کا انحصار انسانی وسائل کی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ پر ہے۔ چونکہ ملک کی دو تہائی آبادی 30 سال سے کم عمر ہے ، روزگار کی فراہمی ایک مسلسل ترجیح ہونی چاہیے۔ مگر یہ ملازمتیں ہنر ، جدت اور مواقع پر مبنی ہوں ، نہ کہ محض سرکاری منصوبے یا سیاسی تقرریاں۔

اسی طرح، موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے خطرات سیلاب سے لے کر اسموگ تک فوری اقدامات اور مزاحمتی نظام کے متقاضی ہیں۔ یہ صرف ترقیاتی اہداف نہیں، بلکہ بقا کا مسئلہ ہیں۔

مالی سال 25کا بجٹ تمام مسائل کا حل نہیں، لیکن یہ درست سمت کی نشان دہی کرتا ہے۔ اصلاحات کے بیج بو دیے گئے ہیں : ٹیرف میں مری، صوبائی ٹیکسیشن اور مالیاتی وفاقیت کی طرف پیش قدمی۔ اب اگلا مرحلہ موثر نفاذ، دیانتداری، اور شمولیت کا ہے۔پاکستان کی معاشی بحالی کسی ایک بجٹ سے نہیں بلکہ ذہن، پالیسی اور ادارہ جاتی کلچر میں جامع تبدیلی سے مشروط ہے۔

(صاحبان مضموں میں ظفر مسعودچیئر مین پاکستان بینکس ایسوسی ایشن ہیں ا ور فرحان بخاری معروف معاشی صحافی ہیں)

تازہ ترین