کوٹری بیراج سے نیچے بہنے والے پانی پر مرکز، پنجاب اور کچھ حد تک سندھ کے زمیندار طبقے کی رائے ہے کہ’’ 20000کیوسک سے زائد پانی نیچے بھیجنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ ماحولیاتی پانی نسلوں کی بقا کیلئے ناگزیر ہے۔گزشتہ آٹھ مہینوں میں 20000 کیوسک سے زائد پانی کوٹری سے نیچے پہلی دفعہ گیا ہے، لیکن یہ مقدار اکثر اوقات ناکافی رہی۔آبی ماہرین کا موقف ہے کہ آپ کے پاس جتنا بھی پانی ہو ڈیلٹا کو اس کا جائز حصہ دیں! بلکہ اگر پانی کم ہو تب بھی ڈیلٹا کو پانی میں شراکت دار بنانا ضروری ہے۔
سندھو دریا، جسکے بہاؤ سے موہن جو دڑو کی تہذیب ابھری، اب سمندر تک پہنچنے کی سکت کھو چکا ہے۔ سندھو کا ڈیلٹا، جو کبھی آبی حیات، زرعی خوشحالی، اور مچھلیوں کےکیلئے مشہور تھا، آج زمینی، حیاتیاتی اور معاشی بحران کا شکار ہے۔ پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلی اسکی بنیادی وجوہات ہیں۔ دریا کے قدرتی بہاؤ کی مسلسل رکاوٹ نے اسکے حیاتیاتی توازن کو تباہ کر دیاہے۔ آج پوری دنیا میں پانی کی منصوبہ بندی میں ’’ماحولیاتی بہاؤ‘‘ بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ دریا کے وجود، ڈیلٹا کی بقا، حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھنے اور ساحلی پٹی کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچانے کیلئے ڈھال ہیں۔
ماحولیاتی بہاؤ کیا ہے؟:ماحولیاتی بہاؤ وہ پانی کا وہ بہاؤ ہے جو کسی دریا یا جھیل کے حیاتیاتی نظام کو صحت مند رکھنے اور اس پر انحصار کرنے والے انسانوں کے روزگار، ثقافت، اور خوراک کیلئے ضروری ہے۔ برسبین (آسٹریلیا) اعلامیہ (2018) کے مطابق، ماحولیاتی بہاؤ صرف آبی حیات کیلئے نہیں، بلکہ انسانوں کی فلاح کیلئے بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دریا کے وجود کو قائم رکھنے کی کوشش ہے۔ یہ جو دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ کوٹری سے نیچے زیادہ اور غیر ضروری پانی جا رہا ہے، وہ حقیقت میں ڈیلٹا کی اصل ضرورت سے بہت کم ہے۔ مینگروو جنگلات، مچھلیوں کی نسلیں اور سمندری پانی کے بڑھاؤ کو روکنےکیلئے جو بہاؤ درکار ہے، وہ ابھی پورا نہیں ہوا۔
سندھو دریا کا بہاؤ اس حد تک بدل چکا ہے کہ اب وہ دریا کیلئے نہیں، صرف انسانی ضروریات کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ڈیلٹا کیلئے، تاکہ قدرتی نظام زندہ رہے، ایک واضح، قانونی، اور سائنسی بنیادوں پر بہاؤ کا تحفظ ضروری ہے۔
عالمی مثالیں اور سائنسی تحقیق:ایکرمین اور ڈنبر (2004) کی تحقیق بتاتی ہے کہ ماحولیاتی بہاؤ کی ضروریات کو ماپنے کے مختلف طریقے ہیں، جن میں بہترین وہ ہیں جو دریا کی حیاتیاتی، موسمیاتی اور سماجی ضروریات کو ملا کر بہاؤ کی ساخت بناتے ہیں۔ ڈنبر اور ساتھیوں (2019) نے اپنی تحقیق میں ایک جامع سوچ پیش کی، جہاں دریا کو سماجی تعلقات سے جوڑا گیا۔ یعنی پانی صرف سائنس نہیں بلکہ تہذیب، عقیدہ، اور زندگیوں سے جڑا ہے۔
دنیا کی کئی مثالیں اسے ثابت کرتی ہیں۔ گنگا میں کمبھ میلے کے دوران مخصوص بہاؤ مقرر کیا گیا۔ کینیڈا میں ایتھاباسکا دریا کیلئے مقامی لوگوں کے حقوق کے تحت ’’ایبوریجنل بیس فلو‘‘ کا تصور لایا گیا، جو ان کے روحانی، تہذیبی، اور معاشی حقوق کے تحفظ کیلئے نافذ ہوا۔ آسٹریلیا میں کلچرل فلو کو قانونی تحفظ دیا گیا تاکہ دریا سے جڑی تہذیب زندہ رہے۔سندھو کی صورت میں، نہ تو ایسا بہاؤ مقرر ہے اور نہ ہی اسکی نگرانی کا کوئی مستحکم نظام ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ سب سے پہلے، ماحولیاتی بہاؤ کو پانی کی تقسیم کی پالیسیوں کا باقاعدہ حصہ بنانا اور اس پر عمل درآمد کروانا ضروری ہے۔ 1991 کے معاہدے کا ساتواں پیرا، جو کوٹری سے نیچے بہاؤ سے متعلق ہے، چونتیس سال میں نافذ نہیں ہوا۔ دوسرا، بہاؤ کی مقدار، موسم اور اثرات کے بارے میں رئیل ٹائم ڈیٹا کی بنیاد پر نگرانی کا نظام قائم کیا جائے۔ تیسرا، مقامی برادریوںخاص طور پر ماہی گیروں، ساحلی دیہات اور مینگروو جنگلات کے محافظوںکو بہاؤ کی منصوبہ بندی میں شامل کیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ سندھو ڈیلٹا کیلئے پانی دینا کسی کو حق سے محروم کرنا نہیں، بلکہ دریا کو زندہ رکھنا ہے۔ جب تک دریا سانس لیتا رہے گا، زمینیں زرخیز، آب و ہوا معتدل اور لوگوں کے پاؤں اس دھرتی سے جڑے رہیں گے۔ لیکن اگر دریا ختم ہوا، تو اسکے ساتھ زندگی کے بنیادی ڈھانچے بھی ختم ہو جائیں گے۔ڈیلٹا کے ساتھ دہائیوں سے دھوکہ ہوا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ دریا صرف بند، ڈیموںاور بیراجوں کیلئے نہیںیہ تہذیبوں کا محافظ ہے۔ اس لیے اسکے وجود کو قائم رکھنا اپنے وجود کو قائم رکھنا ہے۔
انڈس ڈیلٹاکی نازک صورتحال اب انڈس واٹرٹریٹی سے متعلق چونکا دینے والی جیو پولیٹکل پیش رفت سے مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ بھارت نے اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کر دیا ہے، جسے پاکستان میں واٹر ٹیررزم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اگرچہ مضبوط شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت دریائے سندھ کے بہاؤ کو تبدیل نہیں کر سکتا اور جہلم دریا پر اس کا اثر بھی محدود ہے، لیکن چناب دریا پر چند دنوں کیلئے پانی روک کر بہاؤ میں بے قاعدگی پیدا کرنے کی صلاحیت بھارت کے پاس موجود ہے۔ پاکستان اس طرح کی کسی بھی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے فعال طور پر تیاری کر رہا ہے، جبکہ سندھ طاس پر ہمارا سفارتی موقف مضبوط ہے۔
یہ بیرونی دباؤ پاکستان کے اندر پانی کی تقسیم کے چیلنجز کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ فی الحال، دریائے سندھ پر منگلا ڈیم کو بھرنے کیلئے بھاری دباؤ ہے، جبکہ پنجاب اپنے وسیع نہری نظام، بشمول سی جے اور ٹی پی لنک نہروں سے زیادہ سے زیادہ پانی کھینچ رہا ہے۔ اس سے سندھ کو اس کا مکمل حصہ نہیں مل رہا۔ بالائی علاقوں کی کچھ قوتیں اب بھارت کے اقدامات کو بہانہ بنا کر سندھو دریا کے نظام سے مزید پانی کھینچنے کی کوشش کر رہی ہیں، جو پہلے ہی مشکلات کے شکار انڈس ڈیلٹا کو مزید محروم کر دے گا۔ انڈس ڈیلٹا پاکستان کا اہم اثاثہ ہے، اور اس کو بچانا پاکستان کی پائیدار ترقی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کیلئے ناگزیر ہے۔