• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی کے اجلاس میں پچھلے دنوں وفاقی وزیر خزانہ اورنگ زیب نے مالی سال 26/25 کا بجٹ پیش کیا۔ آج کل اس پر بحث جاری ہے وہ بحث جس میں عوام براہ راست شامل نہیں ہوتے۔البتہ انکے منتخب نمائندے حصہ لیتے ہیں، پاکستان میں پہلے سالوں کی طرح اس بجٹ کو بھی آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دے کر عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے تحت بجٹ بنانا اور عوام پر بوجھ ڈالنا مجبوری تھی۔ حالانکہ سب کچھ ایسا نہیں ہے، گھریلو بجٹ سے لے کر قومی بجٹ بنانے کے مرحلے میں آمدنی اور اخراجات میں توازن کو مثبت لیا جاتا ہے اور جب بجٹ کے دستیاب وسائل سے زیادہ اخراجات جاریہ ہوں تو غیر معاشی ترقی کی شرح نمو بڑے بڑے دعوئوں کے باوجود مایوس کن ہی رہتی ہے، بجٹ سے ایک روز قبل سالانہ اقتصادی سروے نے جو کمال دکھایا اور نو ماہ کے اعداد و شمار کی بنیاد پر حکومتی کارکردگی نے ،خاص کر زراعت اور دیگر شعبوں کے حوالے سے ،پریشان کن سوالات اٹھا دیئے پھر بجٹ میں ایک ہاتھ سے لے کر تقریباً سب سیکٹرز سے دونوں ہاتھوں سے واپس لینے کی مالیاتی پالیسی اور خاص کر ٹیکس وصولی کی نامناسب پالیسی سے اقتصادیات کا علم رکھنے والوں اور براہ راست مہنگائی کی زد میں آنے والوں کو خاصی مایوسی ہوئی ہے، اس بجٹ کو کسی بھی لحاظ سے عوام دوست نہیں کہا جا سکتا۔ جہاں تک آئی ایم ایف کا تعلق ہے اس کا پروگرام دنیا کے 25 ممالک میں چل رہا ہے لیکن ہر ملک کی معیشت بالواسطہ اور بلاواسطہ اس کےتابع ضرور ہے مگر ہمارے ہاں تو صورتحال قابو میں نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ اپنا معاشی نظام متوازن بنائیں یعنی اپنا ہائوس اِن آرڈر کریںلیکن ہمارے ہر دور کے حکمران کبھی اس بات کو نہیں مانتے۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ پاکستان کی معیشت صرف غیر ملکی قرضوں کے انحصار پر چل رہی ہے، آپ جتنے مرضی قرضے لیتے جائیں کل تو کسی نے انہیں ادا کرنا ہے اور پاکستان کے عوام کی زندگی مزید مشکلات سے دوچار ہوتی رہے گی۔ قرضوں اور سود کے اخراجات میں پریشان کن اضافہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ حکومت اپنے تمام غیر پیداواری اخراجات 2سال کیلئے منجمد کردیتی اور پاکستان میں ٹیکس فار آل (TAX FOR ALL) پالیسی کا اجرا کرتی۔ کیونکہ اس وقت تاجر طبقہ کسی نہ کسی طرح ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جاسکا یہ اکنامک گورننس کی ناکامی کا واضح اشارہ ہے۔ سرکاری بابوئوںکو مان لینا چاہیےکہ بجٹ میں اعداد و شمار کی مہارت کا جو فن انہیں آتا ہے وہ شاید کسی اور ملک کے بابو کوکم ہی آتا ہو۔ ویسے تو امریکہ ہو یا یورپ یا جنوبی ایشیا ہر جگہ بابو بابو ہی ہوتا ہے، لیکن ہمارا ’’بابو‘‘ سب سے مختلف ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ ہمارے عوام کی اکثریت سادہ اور کم تعلیم یافتہ ہے، انہیں کچھ سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے شیشے میں اتارا ہوتا ہے انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ اب ایک ہزار روپے کے نوٹ کی ویلیو عملاً ایک سو روپے کے برابر آ چکی ہے۔ حکومتی دعوئوں کے برعکس ہر جگہ مہنگائی کی دہائی ہے، اسلام آباد کے حکام کو 24کروڑ عوام کی اس پریشانی کا احساس کب ہوگایہ اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے۔ اسی طرح بجٹ میں پانی کی کمی کے مسئلہ کو ایڈریس تو کیا گیا ہے لیکن پاکستان میں کالا باغ ڈیم سمیت دیگر نئے اسٹوریج بنانے کا کوئی ذکر نہیں ۔ وزیر اعظم کو چاہئے کہ کم از کم حکومتی اتحاد کی سطح پر واٹر سٹوریج ڈیمز کے نام پر APCبلائیں، اس وقت دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں اقتدار میں ہیں اور انکے بازو بھی مضبوط ہیں،اس نعمت سے فائدہ اٹھائیں اور باقی کام کریں یا نہ کریں، کم از کم واٹر سیکورٹی کے ایشو پر اتفاق رائے پیدا کریںایسا کرنے سے بھارت کی بار بار کی دھمکیوں سے بھی ہماری معیشت پر کوئی اثرات نہیں پڑیں گے۔ بلکہ پاکستان کا انحصار نئے اسٹوریج ڈیمز پر بڑھنے سے بھارت کی سندھ طاس معاہدے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی سازشیں بھی ہمیشہ کیلئے ختم ہو سکتی ہیں۔ نئے مالی سال (یکم جولائی) کے آغاز پر وزیر اعظم اس حوالے سے قوم کو خوشخبری دیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میاں شہباز شریف 1980ء کی دہائی میں لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر بنے تھے تو انہوں نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے مطالبے ہی سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔ اب تو پاکستان کے وزیر اعظم بن چکے ہیں انہیں چاہیے کہ شیلف سے پرانی فائلیں نکالیں اور اللّٰہ کا نام لیں، پھر دیکھیں ہر سال عوام کو جو بجٹ سے خوف آتا ہے وہ خود بخود دور ہوتا جائے گا۔

تازہ ترین