اتوار کی صبح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’ٹروتھ سوشل‘ پر کی گئی پوسٹ میں کیا گیا یہ اعلان، جنگ کے دائرے کو پھیلنے سے روکنے کی خواہشمند اور اس کیلئے کوشاں امریکی عوام اور سیاست دانوں کی بھاری اکثریت سمیت پوری عالمی برادری کیلئے انتہائی مایوسی اور اضطراب کا سبب بنا کہ’’ امریکہ نے ایران میں فردو، نطنز اور اصفہان جوہری تنصیبات پر انتہائی کامیاب حملہ مکمل کر لیا ہے اور تمام امریکی طیارے ایران کی فضائی حدود سے باہر نکل چکے ہیں۔ فردو نیوکلیئر سائٹ ہمارا مرکزی ہدف تھا اور اس پر مکمل بمباری کی گئی ہے اور یہ پلانٹ ختم کردیا ہے‘‘ فی الحقیقت صدر ٹرمپ نے اسرائیل کی حمایت میں ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے میں امریکی فضائیہ کو براہ راست ملوث کرکے نہ صرف اپنی اس یقین دہانی کی کھلی خلاف ورزی کی ہے کہ وہ کم از کم دو ہفتے تک ایسا کوئی اقدام نہیں کریں گے اورجوہری معاملے پر ایران سے بات کرکے اختلافات کا حل تلاش کریں گے بلکہ اس طرح انہوں نے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے ایرانی قیادت کے ساتھ شروع کیے گئے مذاکراتی عمل کو بھی سبوتاژ کردیا ہے جس کا مقصد ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکراتی عمل کی بحالی تھا تاکہ جنگ کے دائرے کو پھیلنے سے روکا جاسکے کیونکہ بصورت دیگر پوری دنیا کے ناقابل تصور تباہی سے دوچار ہونے کے خدشات نہایت قوی ہیں۔ واقعاتی حقائق کے مطابق صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف کارروائی دو ہفتے ملتوی کرنے کا فیصلہ تبدیل کرکے فوری حملے کا اقدام صہیونی قیادت کی فرمائش پر کیا۔ برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جمعرات کو اسرائیلی اور امریکی حکام کے درمیان ایک اہم فون کال ہوئی جس میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، وزیر دفاع اسرائیل کاتز اور فوجی سربراہ ایال زمیر شامل تھے۔فون کال کے دوران اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ فردو میں ایک پہاڑ کے اندر گہرائی میں قائم ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے ان کے پاس وقت بہت کم ہے اور امریکا واحد ملک ہے جس کے پاس ایسے ’بنکر بسٹنگ‘ بم ہیں جو اس گہری تنصیب کو تباہ کر سکتے ہیں۔اسرائیل نے امریکی انتظامیہ کو آگاہ کیا کہ صدر ٹرمپ کی طرف سے دیا گیا دو ہفتے کا وقت بہت زیادہ ہے اور فوری کارروائی ضروری ہے۔ اس کال کے دوران امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے اسرائیلی مؤقف کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کو براہ راست مداخلت نہیں کرنی چاہیے، ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی اقدامات امریکا کو جنگ میں گھسیٹ سکتے ہیں۔تاہم صدر ٹرمپ نے امریکی قوم سے اپنے نشری خطاب میں واضح کردیا کہ وہ مکمل طور پر ناجائز اسرائیلی ریاست کے حکمرانوں کیساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ’’ ہم نے ایک ٹیم کی طرح کام کیا، شاید ایسی ٹیم دنیا نے کبھی نہ دیکھی ہو، ہم نے اسرائیل کو درپیش اس خوفناک خطرے کو ختم کرنے میں بڑا قدم اٹھایا ہے۔‘‘صدر ٹرمپ کا یہ طرزعمل عالمی امن ہی نہیں خود امریکہ کے لیے بھی بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ایران پر حملے کی امریکی کانگریس سے منظوری بھی نہیں لی گئی جس کی بنا پر مبصرین کے مطابق یہ کارروائی خود امریکی آئین کی خلاف ورزی ہے۔امریکی کانگریس کی ڈیمو کریٹ رکن سارا جیکبز نے ایران پر صدر ٹرمپ کے فضائی حملوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کے ایران پر حملے نہ صرف غیر آئینی ہیں، بلکہ یہ ایک خطرناک اشتعال انگیزی ہے جو امریکا کو ایک اور خطرناک جنگ میں دھکیل سکتی ہے۔ صدر ٹرمپ کو یہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ جنگیں محض فوجی طاقت سے نہیں جیتی جاتیں، ایسا ہوتا تو امریکہ کو ویت نام اور افغانستان میں بدترین شکست کا سامنا نہ کرنا پڑتالہٰذا عین ممکن ہے کہ ایران کیخلاف ان کی مہم جوئی امریکہ کیلئے ایک اور رسوائی کا سبب بن جائے۔