اب جبکہ جنگ بندی ہوچکی ہے اور امریکہ کے اسرائیل ایران جنگ میں کود پڑنے کے بعد تیسری عالمی جنگ کے خطرات کسی حد تک ٹل چکے ہیں تو اس معاملے پر سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے ۔اگر آپ ایرانی قوم کے مزاج ،انقلاب ایران اور موجودہ حکومت کے انتظام کار اور سوچ کو سمجھنا چاہتے ہیں تو بنی صدر کی تصنیف
My Turn to Speakکا مطالعہ کریں ۔ابوالحسن بنی صدرکاشمار ایران کے قائد انقلاب آیت اللہ خمینی کے قریبی ساتھیوں میں ہوا کرتا تھا۔شاہ ایران کے جابرانہ دورِحکومت میں بنی صدر طویل عرصہ پابند سلاسل رہے۔رہا ہونے پر وہ فرار ہوکر فرانس پہنچے اور آیت اللہ خمینی کے قافلہ انقلاب میں شامل ہوگئے۔1979ء میں انقلاب کے بعدآیت اللہ روح اللہ خمینی اور ابوالحسن بنی صدر ایک ساتھ تہران پہنچے اور ابوالحسن بنی صدر نے پہلے صدر مملکت کے طور پر کام شروع کیا ۔بعد ازاں ان کے رہبراعلیٰ آیت اللہ خمینی سے اختلافات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔بنی صدر ترقی و خوشحالی کے خواہاں تھے ،وہ ملک میں صنعتی انقلاب لانا چاہتے تھے مگر کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اس میدان میں مغربی ممالک کو کئی صدیوں کی سبقت حاصل ہے اور ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہاں البتہ خدائی فوجدار کے طور پر میدان جنگ میں فتح حاصل کرکے ہم ان پر اپنی مرضی مسلط کرسکتے ہیں۔جب ہم اہل مغرب کو شکست دیکر اپنا غلام بنا لیں گے تو پھر سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ان کی تمام تر ترقی و ایجادات پر بھی ہمارا ہی غلبہ ہوگا۔گویا انقلاب ایران کی فکر کو زندگی جینے کے ہنر سے مرنے کا فن سکھانے کی طرف موڑ دیا گیا۔اگر اقبال کے الفاظ مستعار لیں تو ان کا فلسفہ کچھ یوں تھا:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی اور ابوالحسن بنی صدر کے درمیان اختلافات کے بعد بنی صدر کو قتل کرنے کی سازش کا انکشاف ہوا بعد ازاں 10جون 1981ء میں انہیں منصب صدارت سے برطرف کردیا گیا۔
مذہبی پیشوائی کو چیلنج کرنے والے بنی صدر کو بیرون ملک پناہ لینا پڑی ۔ایرانی ایئر فورس کے بوئنگ 707کے ذریعے پیرس پہنچ کر انہیں ایک بار پھر فرانس میں سیاسی پناہ لینا پڑی۔یہیں طویل علالت کے بعداکتوبر2021ء میں ان کا انتقال ہوا۔بنی صدر کی خود نوشت جو 1991ء میں شائع ہوئی اس میں انہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات بیان کئے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں ایک روز آیت اللہ خمینی نے کہا’’سب دانشور دفع ہو جائیں ،ہمیں کسی کی ضرورت نہیں ۔ہم ڈیم ،فیکٹریاں ،اسپتال یا اسکول نہیں بنانا چاہتے کیونکہ انقلاب ایران کا مقصد تولوگوں کو یہ سکھانا ہے کہ مرنا کیسے ہے ۔ــ‘‘
ایران شاید آج بھی آیت اللہ خمینی کی اسی سوچ کر لیکر چل رہا ہے ۔اکتوبر 2003ء میں آیت اللہ خمینی کے جانشین آیت اللہ خامنہ ای نے فتویٰ دیا تھا کہ ایٹم بم خلاف شریعت ہے کیونکہ اسلام بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔بعد ازاں اگست 2005ء میں ایرانی حکومت نے اس فتویٰ کو IAEAسے مذاکرات کے دوران بطور استدلال پیش کیا اور یقین دہانی کروائی کہ ایران کا ایٹم بم بنانے کا کوئی ارادہ نہیں۔
اس حوالے سے بحث ہوتی رہی ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر سے منسوب یہ فتویٰ واقعی حقیقت پر مبنی ہے یا پھر اسے محض سفارتکاری کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ۔بہر حال کڑوا سچ یہ ہے کہ انقلاب ایران کے بعد وہاں کے عوام کو جینے کے سلیقہ ودیعت کرنے کے بجائے مرنے کا راستہ دکھانے پر اکتفا کیا گیا۔سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں مغرب کا مقابلہ کرنے کے بجائے محض جذباتی تقریروں اور نعروں پر انحصار کیا گیا۔’’مرگ بر امریکہ‘‘ کے نعرے لگائے گئے ،اسرائیل کو دھمکیاں دی گئیں ،خطے میں بالادستی کی سرد جنگ شروع کی گئی لیکن دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے قوت مجتمع نہیں کی گئی ۔بے تیغ لڑنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسرائیل نے کئی ہزار کلومیٹردور سے حملہ کرکے ایران کی عسکری قیادت کو نشانہ بنایا مگر اس کے جواب میں جو میزائل داغے گئے ان کے اسرائیلی سرزمین سے جاٹکرانے کو ہی کامیابی کا معیار سمجھا گیا۔اس لڑائی کے دوران کوئی ایک اسرائیلی فوجی اہلکار یا افسر ہلاک نہیں ہوا ۔بعض نادان دوستوں کا اصرار ہے کہ اس کشیدگی کے دوران اسرائیل کا مضبوط اور جدید ترین دفاعی نظام ناکام ہوگیا ہے ۔میزائلوں کی بوچھاڑ کے باوجود آئرن ڈوم سسٹم 70سے80فیصد حملے روکنے میں کامیاب رہا ،قطر میں امریکی فوجی اڈے پر جو 14میزائل داغے گئے ان میں سے 13ناکام بنا دیئے گئے ،یہ دفاعی نظام کے موثر ہونے کا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے ؟
ایک لمحے کے لئے تصور کیجئے کہ امریکہ اور اسرائیل کو للکارنے سے پہلے اگر ایران نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی ہوتی توصورتحال کس قدر مختلف ہوتی؟کیا ایسی صورت میں اسرائیل یا امریکہ کو ایران پر حملہ کرنے کی جرات ہوتی؟اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ اس جنگ میں کون ہارا ،کون جیتا؟
اگر اسرائیل اور امریکہ کی اس یلغار کا مقصد ایران میں قائم حکومتی نظام کا خاتمہ تھا تو یہ بات پہلے سے معلوم تھی کہ اس جارحیت کے نتیجے میں یہ نظام مزید مضبوط ہوگاکیونکہ بیرونی حملے کی صورت میں اندر سے کھوکھلااور کمزور نظام بھی مزید طاقتور ہوجاتا ہے اور اسے نئی زندگی میسر آتی ہے ۔اسی طرح اگر جنگ کا ہدف ایران کو ایٹمی صلاحیت کے حصول سے روکنا تھا اسرائیل اور امریکہ کی کامیابی کے دعوے درست نہیں ۔ممکن ہے امریکی حملوں سے ایران کی ایٹمی تنصیبات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہو مگر ایٹمی پروگرام کسی ایک لیبارٹری پر مشتمل نہیں ہوتا جسے یوں بمباری کرکے نیست و نابود کیا جاسکے ۔اگر ایران ایٹم بم بنانے کے لیے واقعی سنجیدہ ہے ،تو اس طرح کی مہم جوئی کے ذریعے اسے روکا نہیں جاسکتا۔کیونکہ ایران 60فیصد تک یورینیم افزودہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے اور چاہے تو اسے 90فیصد تک لے جاکر ایٹمی صلاحیت حاصل کرسکتا ہے ۔