انشاءاللہ خان بھی کیسے امریکی صدر کے مزاج شناس تھے کہ دو صدی پہلے کہہ دیا تھا
'وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لےثواب الٹا
سو تب سے اردو کے استادوں کے نصیب میں صدمے سہنا لکھ دیا گیا ہے ۔ایک مرتبہ جب کلاس میں آب حیات میں درج انشاء اللہ کی اس غزل کا ذکر کیا ’’تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں‘‘ جہاں لکھنؤ اور انشاء کے آخری ایام کا ذکر ہے۔ تو میں نے اپنے سعادت مند شاگردوں سے پوچھا آپ انشاء اللہ خان سے تو واقف ہوں گے؟ تواعتماد کے سبب ذہین دکھائی دینے والی ایک شاگرد نے کہا وہی انشاء، جن کے بیٹے ابن انشاء تھے۔
اسی لئے میں اردو کے استادوں سے کہتا ہوں کہ ابن انشاء کی نظمیں غزلیں اور گیت اپنی جگہ ، استاد امانت علی کا اپنا مقام ہے مگر ابن انشاء کا آخری کالم ضرور پڑھ لیں ’بیمار کا حال اچھا ہے‘ کہ جب ان پر موت کا سایہ تھا اور وہ لندن کے ایک ہسپتال میں تھے انہیں بتا دیا گیا تھا کہ یہ قریب المرگ مریضوں کا وارڈ ہے اور ان پر وہ دوائیں آزمائی جا رہی ہیں جنہیں عام حالات میں تجویز نہیں کیا جاتا ۔اس ہسپتال میں بھی معتوبِ جہاں ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل بک فائونڈیشن سے ڈیپوٹیشن پر پاکستانی سفارت خانے میں قونصلر کی پوسٹ پر بھجوایا تھا کہ ایک بڑے ذہن اور قلم کار کو بچایا جا سکے یہ اور بات کہ آج بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بھٹو اپنے میر سپاہ ضیاء الحق کے مشورے کے بغیر کچھ کر ہی نہیں سکتے تھے ممکن ہے اس کا کریڈٹ بھی وہی لیں ، بس کیا بحث کریں۔
وہی ذبح بھی کرے ہےوہی لے ثواب الٹا
پھر بھی یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ آخری ایام میں ابن انشا کی شاعری میں اداسی تو بڑھ گئی تھی مگر مزاح نگار کی شوخی اور چنچلتا قائم تھی سو ان کا یہ کالم (بیمار کا حال ...) ان کی وفات کے بعد احمد ندیم قاسمی نے’ فنون‘ میں سیاہ حاشیے کے ساتھ شائع کیا تھا ۔
سیاہ حاشیے کا ذکر آئے گا تو منٹو کا نام ضرور ذہن میں آئے گا جو 1955ءمیں فوت ہوگیا تاہم ایک مرتبہ ضیاء الحق کے دور میں اس کی کتابوں پر پابندی لگی تھی اور کہا گیا تھا کہ منٹو کی کتابیں اسلامی اقدار پر قائم نظریہ پاکستان کے منافی ہیں ۔یونیورسٹی کے کتاب خانے سے اس کی تمام کتابیں ہٹا دی جائیں ۔ مگر جب ڈپٹی لائبریرئن چوہدری مقبول احمد مرحوم نے کہا ’’ ہن کیہ کرئیے ‘‘ پھر میں نے اور میرے استاد اے بی اشرف نے لکھ کے دیا کہ منٹو کی تحریریں اس نظریہ پاکستان کے منافی نہیں جو قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصور میں تھا ۔ ہم نے تب پاکستانی جامعات میں پہلی مرتبہ منٹو اور فیض کو نصاب میں شامل کیا کچھ کتابیں مرتب کرکے بھی شائع کر دیں ۔
ابھی کل رات ہی کسی نے مجھے پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات کا ایک نوٹیفکیشن بھیجا کہ منٹو کی کتب پر پھر اسی الزام کے تحت پابندی لگا دی گئی ہے۔ پہلے تو خیال آیا کہ اب تو فیض احمد فیض بھی نہیں جن کےامرتسری شرارتی شاگرد پر جب کوئی مقدمہ قائم ہوتا تو وہ صفائی کے گواہوں میں ان کا نام ڈال دیتا ۔اب کیا کریں ہم صفائی کے گواہوں اور وکیلوں میں کس کس کے نام لکھیں کہ پہلے ہی مجھے بتایا گیا ہے کہ لاہور کے جس سابق سول جج نے منٹو پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا تھا اس کی پنشن 24 برس کے بعد سپریم کورٹ نے بحال کی ہے تاہم تھوڑی بہت کھوج سے اندازہ ہوا کہ یہ نوٹیفیکیشن درست نہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ منٹو کے بارے میں اصلی یا نقلی پابندی لگائی جائے تو سنسنی کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔