13 جون کو اسلامی جمہوریہ ایران پر صہیونی حکومت کی جانب سے ایک سنگین فوجی حملہ کیا گیا۔ اس وحشیانہ جارحیت میں اب تک 600 سے زائد بے گناہ افراد شہید اور تقریباً 4500 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ ان حملوں میں نہ صرف اہم فوجی تنصیبات بلکہ اسپتالوں اوراقتصادی مراکز جیسے شہری انفرااسٹرکچر کو بھی جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا، جو انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ سنگین صورتحال ہمیں ایک بنیادی سوال کی طرف متوجہ کرتی ہے: آخر یہ جنگ کیوں مسلط کی گئی؟
ایک جانب وہ ناجائز اور نسل پرست حکومت ہے جس کا دامن جارحیت، قبضے اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے آلودہ ہے۔ وہ متعدد اسلامی ممالک پر حملہ آور ہو چکی ہے اور آج بھی ان کی سرزمین پر قابض ہے۔ اسے امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی غیر متزلزل حمایت حاصل ہے۔
دوسری جانب ایک باوقار، خودمختار اسلامی ملک ہے، جو ہزاروں سالہ تہذیب کا امین ہے اور جس نے ہمیشہ علاقائی و عالمی سطح پر امن، استحکام اور اتحاد کا علم بلند رکھا ہے۔
اسرائیل کا پرانا دعویٰ ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔یہ ایک بے بنیاد الزام جو 1990کی دہائی سے اب تک بارہا دہرایا جا چکا ہے، اور ہمیشہ یہ دعویٰ کیا گیا کہ ایران’’محض چند ہفتے‘‘ ایٹمی بم سے دور ہے۔ لیکن عالمی ادارے اور ماہرین اس پروپیگنڈا کو بارہا غلط ثابت کر چکے ہیں۔ ایران کا جوہری پروگرام ہمیشہ پرامن مقاصد کے تحت رہا ہے اور بین الاقوامی نگرانی میں جاری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مغربی طاقتیں خود بھی دو بارخصوصاً 2015ے مشترکہ جامع منصوبۂ عمل (JCPOA)کے ذریعےایران کے پرامن جوہری عزائم کی توثیق کر چکی ہیں۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کو اپنی تمام تنصیبات تک غیر معمولی رسائی دی، اور معاہدے کی مکمل پاسداری کی۔ لیکن 2018 میں، ٹرمپ انتظامیہ نے اس معاہدے سے یکطرفہ اور بلاجواز انخلا اختیار کرکے نہ صرف سفارتی اعتماد کو ٹھیس پہنچائی بلکہ خطے میں کشیدگی کو بھی ہوا دی۔
ایران نے اس کے ردِعمل میں مرحلہ وار اپنے کچھ وعدوں کو معطل کیا، لیکن اس کے باوجود IAEA کے معائنہ کاروں کو ملک سے نکالا نہ ان کی نگرانی میں کوئی رکاوٹ ڈالی۔ ایجنسی نے بارہا تصدیق کی ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام اب بھی پرامن ہے۔
صدر بائیڈن کے دور میں مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے، لیکن مغربی فریقوں کی عدم سنجیدگی اور سستی کے باعث یہ عمل جمود کا شکار رہا۔ ایرانی پارلیمان نے یورینیم کی افزودگی میں اضافے کی منظوری دی۔ بعد ازاں، ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ منصبِ صدارت پر فائز ہونے کے بعد امریکہ نے ایک بار پھر مذاکرات کی خواہش ظاہر کی۔ ایک باقاعدہ پیغام متحدہ عرب امارات کے ذریعے رہبر معظم انقلاب اسلامی کو بھیجا گیا، جس پر ایران نے رضامندی ظاہر کی۔ تاہم، پچھلے تلخ تجربات کی روشنی میں ایران نے ایک غیر جانب دار ثالث کی شرط رکھی اور عمان کو مذاکرات کی میزبانی سونپی گئی۔ پانچ دور مکمل ہوئے اور چھٹا دور 15 جون کو مسقط میں طے تھا، لیکن 13جون کو اسرائیل کی جارحیت نے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کردیا۔
اسرائیل اور امریکہ کے ان مایوس کن اقدامات نے چند بنیادی حقائق کو عیاں کر دیا ہےکہ’’ایران اور اسرائیل کے مابین تنازع جوہری ہتھیاروں کا نہیں، بلکہ اصولوں، انصاف اور مزاحمت کا ہے۔ ایک ایسی غاصب ریاست، جو خود جوہری ہتھیاروں سے لیس ہو اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرے، وہ دوسروں کے پرامن پروگراموں پر اعتراض کرنے کا اخلاقی جواز کھو چکی ہے۔اصل وجہ ایران کی فلسطینی عوام کی ثابت قدم حمایت اور اسرائیلی توسیع پسندانہ عزائم کی مخالفت ہے۔ امریکی حکومت نے بارہا ثابت کیا ہے کہ وہ اسرائیلی مفادات کی تکمیل کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے، یہاں تک کہ اپنے قومی مفاد کو بھی پسِ پشت ڈال دیتی ہے۔ اسرائیل کی کمزوریوں کو چھپانے کیلئے امریکہ نے خود ایرانی جوہری مراکز پر حملہ کیا، جو اس کی ترجیحات کا واضح اظہار ہے‘‘۔
یہ پہلی بار نہیں کہ امریکہ نے ایران کے خلاف براہِ راست کارروائی کی ہو۔ 1987 ء میں صدام حسین کی مسلط کردہ جنگ کے آخری مراحل میں جب اسلامی جمہوریہ ایران کی عسکری برتری نمایاں ہوئی، تب بھی امریکہ نے ایرانی بحری جہازوں اور ایک مسافر بردار ہوائی جہاز پر حملہ کیا تھا۔مگر اس بار، ایران کی جانب سے فوری، بھرپور اور مؤثر جواب دیا گیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے واضح کیا ہے کہ اپنی سرزمین اور خودمختاری کے تحفظ میں کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔ چنانچہ، قطر میں واقع امریکی فوجی اڈے’’العدید‘‘ پر کارروائی کی گئی۔یہ جوابی حملہ ایران کی فوجی تیاری، حکمت عملی اور دفاعی صلاحیت کا عملی مظہر تھا، جس نے استکباری طاقتوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا اور علاقائی ثالثوں کو جنگ بندی کیلئے متحرک کیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کا مؤقف ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کو دنیا کے نگہبان یا محافظ ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی پالیسیاں نہ صرف عالمی امن اور سلامتی کیلئے نقصان دہ ہیں بلکہ ایک منصفانہ بین الاقوامی نظام کیلئے بھی خطرہ بن چکی ہیں۔
یہ عظیم کامیابی رہبر معظم کی بصیرت، مسلح افواج کی قربانیوں، ایرانی قوم کے اتحاد، اور اسلامی دنیا خصوصاًپاکستان کے باوقار عوام کی دعاؤں اور حمایت کا ثمر ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ حتمی فتح ان شاءاللہ نزدیک ہے۔
( صاحب ِ تحریر پاکستان میں اسلامی جمہوریہ ایران کےسفیر ہیں )