پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں معاشی، سماجی اور ادارہ جاتی بحرانوں نے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ان چیلنجوں کا سامنا محض سطحی اقدامات سے ممکن نہیں، بلکہ ہمیں بطور قوم اپنی سوچ، نظام اور قیادت کے معیار کو ازسرِنو ترتیب دینا ہوگا۔ یہ مقالہ انہی مسائل کا تجزیہ پیش کرتا ہے، اور ان کے حل کے لیے ایک واضح بنیادوں پر استوار راستہ تجویز کرتا ہے۔
پاکستان میں مضبوط معیشت کے قیام اور غربت کے خاتمے میں ناکامی کی بنیادی وجہ نااہل طرزِ حکمرانی اور اعلیٰ سطح پر بدعنوانی ہے، جس کے باعث ملک معاشی دیوالیہ کے دہانے پر پہنچ چکا تھا اور ایک ناکام ریاست بننے کے خطرے سے دوچار تھا۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے سمت کی تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے، لیکن اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم سے غلطی کہاں ہوئی۔
پاکستان طویل عرصے سے سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے، جس نے مختلف حکومتوں کی کارکردگی اور اقتصادی منصوبہ بندی کو شدید متاثر کیا۔ اقتدار کی بار بار تبدیلی اور فوجی مداخلتوں کے باعث پالیسیاں غیر مستقل رہیں، جس سے طویل المدتی اصلاحات کا نفاذ ممکن نہ ہو سکا۔ بدعنوانی نے معیشت کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ عدالتی نظام کی کمزوری، سرکاری وسائل کی لوٹ مار، اقربا پروری اور رشوت ستانی نے ریاستی اداروں کو مفلوج کر دیا ہے۔ نیز بلدیاتی انتخابات کرانے سے انکار اور نچلی سطح پر اختیارات اور وسائل کی منتقلی نہ ہونے نے جمہوریت کا مذاق بنا دیا ہے۔
ٹیکس کا ناقص نظام بھی معیشت کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ دنیا کے کم ترین ٹیکس ٹوجی ڈی پی تناسب رکھنے والے ممالک میں پاکستان شامل ہے۔ وفاقی آمدنی بورڈ FBR ٹیکس دہندگان کے دائرے کو وسعت دینے میں ناکام رہا ہے، اور زیادہ تر انحصار بالواسطہ ٹیکسز (جیسے سیلز ٹیکس) پر ہے، جو غریب طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ 24 کروڑ سے زائد کی آبادی میں صرف تقریباً 30 لاکھ لوگ باقاعدہ ٹیکس دہندہ ہیں، جس سے ریاست کی مالی بنیادیں کمزور پڑ گئی ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت تعلیم و صحت جیسے اہم شعبے صوبوں کو منتقل کرنے سے قومی سطح پر شدید بدانتظامی اور افراتفری نے جنم لیا۔
توانائی کا بحران بھی بدعنوانی سے پیدا ہوا، بجلی کے نجی ٹھیکیداروں سے مہنگے اور ناقابلِ عمل معاہدے کیےگئے۔ اس کے نتیجے میں صنعتی ترقی کا عمل رُک گیا اور بے روزگاری میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ۔ کپڑ اسازی جیسے برآمدی شعبے بدترین توانائی بحران اور مہنگی بجلی کے باعث تباہ ہو چکے ہیں۔ توانائی کا شعبہ گردشی قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے، جس کی مالیت ڈھائی کھرب روپے سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔زرعی معیشت پر حد سے زیادہ انحصار بھی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اگرچہ زراعت میں 40 فیصد سے زائد افرادی قوت مشغول ہے، مگر اس کا جی ڈی پی میں حصہ صرف 22 فیصد کے قریب ہے۔ پرانے زرعی طریقے، پانی کی قلت اور ناقص آبپاشی کے زرعی نظام نے پیداوار کو محدود کر رکھا ہے۔
پاکستان کی صنعتی بنیاد نہایت کمزور ہے اور کم آمدن مصنوعات (جیسےکپڑا سازی) پر انحصار زیادہ ہے۔ اعلیٰ تکنیکی یااعلیٰ آمدن مصنوعات نہ ہونے کے برابر ہیں، جو ہماری برآمدات کی کمزوری کی بنیادی وجہ ہیں۔ اسکے برعکس بنگلہ دیش نے اپنی برآمدی معیشت کو ایک ہی صنعت پر انحصار کرنے کے بجائے گارمنٹس سمیت دیگر جدید اور منافع بخش شعبہ جات میں کامیابی سے وسیع کیا ہے، جس سے اس کی معاشی بنیاد مضبوط ہوئی ہے۔ جب کہ پاکستان چند محدود صنعتوں میں ہی الجھا ہوا ہے، جو عالمی منڈی کے اتار چڑھاؤ کے سامنے غیر محفوظ ہے۔
اگرچہ 2002ء میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے قیام کے بعد اعلیٰ تعلیم میں ایک خوش آئند بہتری دیکھی گئی، تاہم بدقسمتی سے ہمارا مجموعی تعلیمی نظام ملک میں علم پر مبنی معیشت کی بنیاد رکھنے میں ناکام رہا، کیونکہ یہ ترقی نچلی سطح کی تعلیم، ہنرمندی، اور عملی تربیت تک نہیں پہنچ سکی ۔ شرحِ خواندگی اب بھی تقریباً 60 فیصد کے آس پاس ہے۔ دیہی علاقوں میں اسکول بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور بیشتر طلبا ءکم از کم تعلیمی معیار پر بھی پورا نہیں اترتے۔
صحت کا شعبہ بھی بری طرح نظرانداز کیا گیا ہے۔ جی ڈی پی کا صرف 1فیصد صحت پر خرچ کیا جاتا ہے، جس سے سرکاری اسپتالوں میں ہجوم ہے اور دیہی علاقوں میں بنیادی طبی سہولیات بھی میسر نہیں۔
ان تمام مسائل کی جڑ ناقص طرزِ حکمرانی ہے۔ افسر شاہی کی سست روی، سیاسی مداخلت اور غیر مؤثر نگرانی ترقیاتی منصوبوں کو ناکام بنا دیتی ہے۔ اسلام آباد کا نیا ایئرپورٹ اس کی ایک مثال ہے، جو 13 سال بعد اور دگنی لاگت سے مکمل ہوا۔
بیرونی قرضوں کا بڑھتا بوجھ معیشت کو جکڑ چکا ہے۔ پاکستان کا بیرونی قرضہ 125 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور ملک بار بار آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ مالی سال 2022-23 میں قومی بجٹ کا 41 فیصد صرف قرضوں کی ادائیگی پر صرف ہوا، جس سے تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے کے لیے وسائل نہیں بچے۔
ملک میں مسلسل سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی کے خدشات اور افسر شاہی کی پیچیدگیوں نے سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ 2018 میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم 2.2 ارب ڈالر تھا، جو گھٹتے گھٹتے 2023 میں صرف 1.82 ارب ڈالر رہ گیا، جو کہ ایک تشویشناک رجحان ہے۔ٹرانسپورٹ اور توانائی کے شعبے میں انفراسٹرکچر کی کمی نے بھی ترقی کو محدود کیا ہے۔ پرانی اور خستہ حال سڑکیں، ناقص ریل نظام اور دہائیوں سے التوا کا شکار کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ، شہروں میں درکار ترقیاتی منصوبوں کی قلّت کو ظاہر کرتا ہے۔
دہشت گردی نے معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ 9/11کے بعد مسلسل بدامنی سے پاکستان کو 150 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ ملک میں ہنرمند افراد کی بڑے پیمانے پر بیرونِ ملک روانگی (Brain Drain) بھی بڑا المیہ ہے۔ صرف 2022 میں 7 لاکھ 65 ہزار، اور 2023 میں مزید دس لاکھ پاکستانی ہنر مند ملک چھوڑ چکے ہیں۔ حکومت کی جانب سے مناسب تنخواہیں اور کیریئر مواقع نہ ہونے کے باعث یہ سلسلہ جاری ہے۔
ان تمام بحرانوں سے نکلنے کے لیے ہمیں ہمہ جہت حکمتِ عملی کی ضرورت ہے، جو اچھی حکمرانی، معاشی تنوع، فوری انصاف، سماجی مساوات اور وسائل کے بہتر انتظام کو یقینی بنائے۔ اس کے لیے ہمیں ایک ٹیکنوکریٹک جمہوریت کی ضرورت ہے، جہاں وزراء اور سیکریٹریز اپنے اپنے شعبوں کے ماہر ترین افراد ہوں۔ قیادت دیانت دار، جدید سائنسی تقاضوں سے ہم آہنگ، اور ٹیکنالوجی کے ذریعے علم پر مبنی معیشت کی تعمیر کے قابل ہو، تاکہ پاکستان ایک مضبوط اور خوشحال ملک بن سکے۔