بجٹ 26-2025ءمیں ایکسپورٹرز کو درپیش بنیادی مسائل حل کرنے اور برآمدات بڑھانے کیلئے درکار اقدامات تجویز نہ کئے جانے سے انڈسٹری کی مایوسی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں ایکسپورٹ بڑھانے کے حوالے سے کوئی روڈ میپ نہیں دیا اور نہ ہی انڈسٹری کی جانب سے بار بار توجہ دلانے کے باوجود فائنل ٹیکس رجیم اور ایکسپورٹ فیسلی ٹیشن اسکیم کو اصل حالت میں بحال کرنے کے حوالے سے کوئی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت نے گزشتہ وفاقی بجٹ میں آئی ایم ایف کے مالیاتی پیکیج سے مشروط شرائط کو پورا کرنےکیلئےجہاں ایک طرف محصولات کی وصولی کے ہدف میں تقریباً 40 فیصد سے زائد کا اضافہ کیا تھا وہیں برآمدکنندگان کو بھی کسی قسم کا ریلیف فراہم کرنے کی بجائے پہلے سے دستیاب سہولیات بھی واپس لے لی گئی تھیں۔ اس حوالے سے پہلے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو ایک فیصد فائنل ٹیکس رجیم (ایف ٹی آر) سے نکال کر کم از کم ٹیکس رجیم (ایم ٹی آر) میں شامل کیا گیا اور پھر ایکسپورٹ فنانس اسکیم کے تحت لوکل سپلائیز پر زیرو ریٹنگ کی سہولت ختم کرکے 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا تھا۔ بعدازاں ایف بی آرنے 25 فروری 2025 کو جاری ہونے والے ایس آر او 204(1)/2025 کے تحت ایکسپورٹ فیسلی ٹیشن اسکیم میں مزید تبدیلیاں کرتے ہوئے جہاں انڈسٹری کی طرف سے مقامی مارکیٹ میں مقررہ حد سے زیادہ مقدار میں ویسٹ کی فروخت پر سیلز ٹیکس کے علاوہ دیگر ڈیوٹیز اور ٹیکسز لاگو کر دیئے وہیں ایکسپورٹ فیسلی ٹیشن اسکیم کے تحت منگوائی گئی اشیاء کو استعمال کرنے کی مدت بھی چار سال سے کم کر کے نو ماہ کر دی گئی تھی۔ اس حوالے سے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے دبائو پر سپننگ انڈسٹری کو تحفظ دینے کیلئےحکومت اب ایکسپورٹ فیسلی ٹیشن اسکیم کے تحت بیرون ملک سے درآمد کئے جانیوالے یارن پر سیلز ٹیکس نافذ کرنے جا رہی ہے۔
حکومت کے اس اقدام پر پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن پہلے ہی شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے یہ مطالبہ کر چکی ہے کہ فائنل ٹیکس رجیم اور ایکسپورٹ فیسلی ٹیشن اسکیم کو گزشتہ مالی سال سے پہلے والی شکل میں بحال کیا جائے۔ اب پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، پاکستان لیدر گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن اور پاکستان اسپورٹس گڈز مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن سمیت پاکستان گلوز مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن، سرجیکل انسٹرومنٹس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن آف پاکستان، ایوان صنعت و تجارت سیالکوٹ اور سرگودھا چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن و دیگر تنظیموں نے بھی اس مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف سے فوری نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔
موجودہ حالات میں 11 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کرکے مجموعی قومی برآمدات میں ایک تہائی حصہ ڈالنے والی ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹ انڈسٹری کیلئےبرآمدات میں اضافے کا تسلسل برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے برآمدات بڑھانےکیلئےبرآمدی صنعتوں کو سپورٹ فراہم کرنے اور درپیش مسائل حل کرنے کے حوالے سے جو بلند بانگ دعوے کئے جاتے رہے ہیں یہ صورتحال اسکے بالکل برعکس ہے۔ برآمدات میں اضافے کے حوالے سے حکومتی پالیسی کا اندازہ بجٹ تقریر سے لگایا جا سکتا ہے جس میں وزیر خزانہ نے صرف ایک بار لفظ ’’ایکسپورٹ‘‘کا ذکر کیا اور وہ بھی منفی انداز میں ایکسپورٹ فیسلی ٹیشن اسکیم کے تحت درآمدی یارن پر ڈیوٹیز کا اعلان کرتے ہوئے۔ اس لئے اگر وزیر اعظم شہباز شریف نے اب بھی اس پالیسی کو تبدیل کرنےکیلئے کردار ادا نہ کیا تو اندیشہ ہے کہ برآمدات میں کمی سے قومی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوششوں کو شدید دھچکا لگے گا اور برآمدات کو 100 ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف حاصل کرنا بھی ناممکن ہو جائے گا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ برآمدی صنعتیں جب بھی اپنے کسی مسئلے کے حل کی بات کرتی ہیں تو ان پر یہ اعتراض لگا دیا جاتا ہے کہ ایکسپورٹرز حکومت سے کوئی سبسڈی یا چھوٹ مانگ رہے ہیں حالانکہ ایکسپورٹرز نے عالمی سطح پر مقابلہ کرنےکیلئےہمیشہ مسابقتی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت پہلے ہی دیگر ہمسایہ ممالک کی نسبت زیادہ ہے ایسے میں برآمدی صنعتوں پر مزید ڈیوٹیز کا نفاذ ان کیلئے برآمدی آرڈرز کا حصول اور مشکل بنا دے گا۔دوسری طرف عالمی سطح پر تبدیل ہوتے حالات اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا تقاضا ہے کہ کپاس پر انحصار کرنے کی بجائے ویلیو ایڈڈ ملبوسات کی برآمدات میں اضافے کیلئےمتنوع، پائیدار اور جدت پر مبنی نقطہ نظر کو اپنایا جائے۔ افسر شاہی کو بھی چاہیے کہ وہ ہر شعبے پر اپنا تسلط مضبوط بنانے کی بجائے ایسی پالیسیوں کو اپنانے پر زور دے جس سے ملک میں انڈسٹریلائزیشن کو فروغ ملے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری گزشتہ چند سال کے دوران اختیار کی گئی پالیسیوں کے سبب پہلے ہی عالمی سطح پر مسابقت میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ ایسے میں درآمدی یارن پر ڈیوٹی عائد کرنے سے کاروباری لاگت میں مزید اضافہ ہو گا اور ایکسپورٹ انڈسٹری بند ہونا شروع ہو جائے گی جس سے بڑے پیمانے پر بیروزگاری کا خدشہ ہے۔ واضح رہے کہ فائنل ٹیکس رجیم اور ایکسپورٹ فیسلی ٹیشن اسکیم کی بحالی سے حکومت کو محصولات کی وصولی میں کسی قابل ذکر کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا بلکہ اس سے برآمدات میں اضافے کی بدولت زرمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھیں گے اور پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر کیا جا سکے گا۔