وفاقی حکومت نے بجلی کے بلوں سے بجلی ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے تمام وزرائے اعلیٰ کو جولائی 2025ء سے بجلی کے بلوں سے بجلی ڈیوٹی کی وصولی بھی ختم کرنے کے فیصلے سے آگاہ کرنے کیلئے خط لکھ دئیے ہیں۔ اپنے خطوط میں وفاقی وزیر نے مختلف چارجز، ٹیکسز اور ڈیوٹیز کی وجہ سے صارفین کے بلوں میں پیدا ہونے والی پیچیدگی ختم کرنے کیلئے وزرائے اعلیٰ سے تعاون کی درخواست کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے مہنگے نرخ پہلے ہی ایک بڑا مسئلہ ہیں اور اس پر مختلف محصولات کا اضافی بوجھ بلوں کو مزید پیچیدہ بناتا ہے جس سے صارفین کیلئے اپنے بجلی کے اخراجات کو سمجھنا اور سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وفاقی وزیر نے اپنے خطوط میں وفاقی حکومت کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں کمی کیلئے کئے گئے اقدامات پر روشنی ڈالی جن میں نجی پاور کمپنیوں سے معاہدوں پر دوبارہ بات چیت، سرکاری پاور پلانٹس کے منافع میں کمی اور دیگر اصلاحات شامل ہیں۔اویس لغاری کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ حکومت بجلی کے بلوں کو سادہ بنانے کیلئے بھی پرعزم ہے تاکہ یہ صرف بجلی کے استعمال کی اصل لاگت کو ظاہر کریں اور انہیں مختلف قسم کی رقوم کی وصولی کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ خطوط میں مزید لکھا گیا ہے کہ اس مقصد کے حصول کیلئے ہم صارفین کے بلوں سے غیر متعلقہ چارجز کو ختم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاور ڈویژن نے فیصلہ کیا ہے کہ جولائی 2025ء سے بجلی کے بلوں سے بجلی ڈیوٹی کی وصولی بند کر دی جائے گی۔بجلی کے بلوں میں صوبائی ٹیکس کا خاتمہ عوام کیلئے خوش آئند ضرور ہے لیکن اس کے ساتھ ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ایک ایسا ظالمانہ وار ہے جو پہلے ہی دباؤ میں زندگی گزارتے عوام کی زندگی کو مزید کٹھن بنادے گا۔یہ دو متضاد اقدامات حکومتی پالیسیوں کی پیچیدگی کو عیاں کرتے ہیں،جہاں ایک طرف عوام کی بہبود کی کوشش نظر آتی ہے،تو دوسری طرف ان کی مشکلات میں اضافے کا سامان کیا جا رہا ہے۔بجلی کے بلوں سے صوبائی ٹیکس کاخاتمہ ایک اچھی پیش رفت ہے،برسوں سے بجلی کے صارفین پر اضافی ٹیکسوں کا بوجھ ایک ناقابل برداشت ظلم تھا،یہ ٹیکس،بجلی کی اصل قیمت سے کہیں زیادہ اور صارفین کیلئے ایک مستقل اذیت کا باعث ہیں۔یہ صورتحال صارفین کیلئے ایک ناقابل فہم ستم ہے،کیونکہ وہ بجلی کے استعمال سے زیادہ اس کے ٹیکسوں کی ادائیگی کر رہے ہیں۔حکومت کا یہ فیصلہ کہ صارفین صرف بجلی کی اصل قیمت ادا کریں،ایک قابل ستائش اقدام اور منصفانہ نظام کی طرف پیش قدمی قراردی جاسکتی ہے،لیکن یہ کافی نہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ بجلی کے بلوں سے ہر قسم کے اضافی چارجز مکمل ختم کرے،تاکہ صارفین کو صرف بجلی کی اصل قیمت ادا کرنا پڑے۔یہ ایسی لوٹ مار کا خاتمہ ہو گا جو برسوں سے جاری ہے،اور اس سے عوام کا حکومتی اداروں پر اعتماد بحال ہوگا۔دوسری جانب،پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو عام آدمی کیلئے کسی صورت بھی قابل برداشت نہیں بلکہ ایک ظالمانہ اقدام ہے جسکی کوئی معقول وجہ پیش نہیں کی جاسکتی۔عام آدمی جو پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے،اس اضافے سے مزید مشکلات کا شکا ر ہو جائے گا۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ صرف ٹرانسپورٹ کے اخراجات کو بڑھاتا ہے،بلکہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اضافے کا باعث بنتا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے پر فوری نظر ثانی کرے اورپیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ واپس لے۔دوسری جانب وفاقی حکومت نے امریکی عدالت میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس میں عدالتی معاونت فراہم کرنے اور فریق بننے سے انکار کر دیا ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خاں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صحت اور وطن واپسی سے متعلق ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی درخواست پر سماعت کی اور حکومت سے امریکہ میں کیس کا فریق نہ بننے کی وجوہات طلب کر لیں۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حکومت نے عافیہ صدیقی کیس میں فریق نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت نے اس پر ریمارکس دیئے کہ انکار کے فیصلہ کی بہرحال وجوہات تو ہوتی ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی آئینی عدالت میں آکر بتائے کہ فلاں فیصلہ کیا ہے مگر اس کی وجوہات نہ بتائے۔ فاضل عدالت نے کیس کی مزید سماعت 4 جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ تاریخ سماعت پر عدالت کو وجوہات سے آگاہ کریں۔ اس سے زیادہ افسوسناک صورت حال اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ پاکستان کی ایک بیٹی گزشتہ 20 سال سے امریکہ کی قید میں ہے جسے امریکی عدالت نے امریکی فوجیوں پر حملہ آور ہونے کی محض کوشش کے الزام میں 80 سال قید کی سزا دے رکھی ہے جو شرف انسانیت کی بھی تذلیل کے مترادف ہے۔ اگر پاکستان حکومت عافیہ کے کیس میں اس کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی تو ایک تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی زندگی جیل میں سڑتے صعوبتیں برداشت کرتے کرتےختم ہو جائے گی اور دوسرے پاکستان پر امریکی غلامی کا لیبل بھی مستقل طور پر لگ جائے گا۔ حکومت چاہتی تو قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت شکیل آفریدی کوامریکہ کے حوالے کر کے ڈاکٹر عافیہ کو امریکی قید سے آزاد کرا لیتی جس کی واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سےمبینہ پیشکش بھی کی گئی مگر اس سے بڑی بے حسی اور کیا ہوسکتی ہے کہ حکومت ڈاکٹر عافیہ کے کیس میں امریکی عدالت کے روبرو فریق بننے کو بھی تیار نہیں۔