• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک شہر جو کبھی روشنیوں کا گہوارہ تھا، آج اندھیروں میں ڈوبا ہے۔ ایک شہر جسے پاکستان کا دل کہا جاتا تھا، آج اسکی دھڑکنیں بےترتیب ہو چکی ہیں۔ یہ کراچی ہے، پاکستان کا معاشی دارالحکومت، جسے ستر فیصد ریونیو پیدا کرنے کا فخر حاصل ہے، لیکن جسکی سڑکیں، عمارتیں اور نظام خون کے آنسو رو رہا ہے۔گزشتہ روز لیاری میں گرنے والی ایک مخدوش عمارت نے صرف دس جانیں نہیں لیں، بلکہ سندھ حکومت کی پندرہ سالہ کارکردگی کا جنازہ بھی اٹھایا۔ نہ جانے کتنے انسان اُس ملبے تلے دبے ہیں، اور نہ جانے ایسی کتنی ہی عمارتیں کراچی کی تنگ گلیوں میں کھڑی موت کا سایہ بن چکی ہیں۔ ان عمارتوں کے ستونوں میں سیمنٹ نہیں، رشوت بھری گئی ہے۔ ان کی بنیادوں میں آہنی سلاخیں نہیں، بلکہ سرکاری اداروں کی غفلت اور ملی بھگت دفن ہے۔لیاری، جو کبھی پیپلز پارٹی کا قلعہ سمجھا جاتا تھا، آج خستہ حال ہے۔ جہاں کبھی ذوالفقار علی بھٹو کی آواز گونجتی تھی، وہاں آج لاشوں کی خاموشی بولتی ہے۔ یہ وہی لیاری ہے جس نے پیپلز پارٹی کو طاقت بخشی، لیکن بدلے میں اُسے کیا ملا؟۔کراچی زلزلے کی فالٹ لائن پر واقع ہے۔ ماہرین کئی بار خبردار کر چکے ہیں کہ ایک درمیانے درجے کا زلزلہ، خدا نخواستہ، شہر کو ملبے کا ڈھیر بنا سکتا ہے۔ لیکن افسوس، ہماری حکومت کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب ملبہ گر کر چیخیں نکالتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ملبے سے کون نکلے گا؟ وہ معصوم جو اپنی زندگی کی جمع پونجی لگا کر ان دو نمبر عمارتوں میں بستے ہیں یا وہ لیڈر جن کیلئے وزارت عظمیٰ کا خواب سب کچھ ہے؟کراچی کی حالت آج گاؤں دیہات سے بھی بدتر ہو چکی ہے۔ نارتھ ناظم آباد، حیدری، بفرزون، پی سی ایچ ایس، گلشنِ اقبال جیسے ماضی کے پوش علاقے آج نالوں، گندے پانی، ٹوٹی سڑکوں اور اُبلتے گٹروں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ آپ ان علاقوں کی گلیوں میں چلیے، یوںلگے گا جیسے آپ نوابشاہ یا لاڑکانہ کے کسی پسماندہ محلے میں کھڑے ہیں۔ یہ شہر جو پاکستان کو چلا رہا ہے، خود وینٹی لیٹر پر ہے۔سرکاری ادارے مفلوج ہیں۔ ہر ادارے میں رشوت کا بازار گرم ہے۔ اہلیت کی جگہ سفارشی تعیناتیاں ہیں۔ میئر کراچی سے لے کر واٹر بورڈ، KDA، بلدیہ عظمیٰ، سب ادارے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ لیکن زمین پر گرنے والی عمارتیں، ٹوٹتی سڑکیںاور مرتے انسان سوال کر رہے ہیں—کیا کوئی ہے جو ذمہ دار ہے؟ایسے میں اگر بلاول بھٹو زرداری وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہونا چاہتے ہیں، تو اُنہیں سمجھنا ہوگا کہ یہ دوڑ لاہور یا اسلام آباد سے نہیں، کراچی سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا پہلا دروازہ لیاری ہے، دوسرا نارتھ کراچی، تیسرا ملیر، اور چوتھا گلشنِ اقبال۔ اگر ان دروازوں کے تالے نہیں کھولے گئے، اگر یہاں کے باسیوں کو وہی ملبہ، وہی زوال، وہی غربت اور وہی گٹر کا پانی ملا، تو وزارت عظمیٰ کا خواب،خواب ہی رہے گا۔بلاول ایک ذہین، پڑھے لکھے اور بین الاقوامی معیار کے لیڈر ہیں۔ لیکن اگر وہ کراچی، لاڑکانہ، نوابشاہ، حیدرآباد اور سکھر کو ماڈل سٹی نہ بنا سکے تو پاکستان کے باقی شہروں کو کیسے سنواریں گے؟ اگر اُن کے زیرِ نگرانی سندھ میں 15 سال بعد بھی صحت، تعلیم، پینے کا پانی، صفائی اور بنیادی سہولتیں ناپید ہیں تو پھر قوم اُن پر کیسے اعتماد کرےگی؟ وزیراعلیٰ سندھ اور میئر کراچی کی کارکردگی پر اگر کوئی دیانتدارانہ جملہ لکھا جائے تو وہ یہ ہوگا:یہ وہ مسافر ہیں جنہیں راستے کا علم نہیں۔وزیراعلیٰ جو پندرہ برس سے صوبے کا انتظام سنبھالے بیٹھے ہیں، انکے اقتدار کے سائے میں کراچی کی حالت قبرستان سے بدتر ہو چکی ہے۔ اسپتالوں میں دوائیاں نہیں، اسکولوں میں اساتذہ نہیں، سڑکوں پر روشنی نہیںاور سرکاری دفاتر میں شرافت نہیں۔ دوسری طرف میئر کراچی، جنہیں عوام نے بہت امیدوں کے ساتھ منتخب کیا تھا، وہ یا تو سیاسی دبائو?کا شکار ہیں یا پھر انتظامی طور پر مکمل ناکام۔ بلدیاتی نظام اُنکے اختیار سے باہر ہے۔ عوام کے مسائل پر انکی زبان اور آنکھیں بند ہیں۔ کیا یہ وہ قیادت ہے جسکے رحم و کرم پر کراچی جیسے عظیم شہر کو چھوڑ دیا گیا ہے؟ اگر یہی گورننس ہے، تو پھر کسی زلزلے کی ضرورت نہیں، ان حکمرانوں کی تباہ کن پالیسیاں ہی اس شہر کی سب سے بڑی آفت ہیں۔یہ کالم ایک تنقید نہیں، ایک آئینہ ہے۔ ایک شہری کا نوحہ ہے، ایک کارکن کی پکار ہے، ملبے کے نیچے سے آتی ہوئی ایک سسکی ہے۔ وزارت عظمیٰ کا راستہ تبھی کھلے گا جب کراچی کے گٹر بند ہوں گے، جب عمارتیں گرنا بند ہوں گی، جب لیاری میں بھٹو کی آواز ایک بار پھر انصاف بن کر گونجے گی۔ ورنہ یہ راستہ ملبے میں دفن ہو جائے گا اور پاکستان ایک بار پھر اُسی اندھیرے میں ڈوبا رہے گا جس میں آج کراچی غرق ہے۔

تازہ ترین