عجب اتفاق ہے کہ جس روز میں یہ سطریں لکھ رہی ہوں آٹھ محرم ہے قافلہ حسین دریائے فرات کے کنارے میدان کربلا میں خیمہ زن ہے،یزیدی قوتوں نے حق پرستوں کا پانی بند کر رکھا ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ پانی بند کرنے والوں نے ہمیشہ ذلت ہی اٹھائی ۔پانی زندگی کے نمو اور تسلسل کی علامت ہے۔دریا بہتے ہوں تو کناروں پر انسانی بستیاں آبادہونے لگتی ہیں دریا کا پانی خشک ہونے لگے تو وہاں زندگی کا وجود سکڑنے لگتا ہے۔ صدیوں سے پانی انسانی زندگی کے ساتھ جڑا ہوا ایک لازم ملزوم جزو ہے انفرادی زندگی سےقوموں کی اجتماعی زندگی تک پانی ملکوں کی زراعت معیشت اور ماحولیات کے توازن کی ایک بنیادی کلید ہے۔ ملکوں کے سیاسی عسکری اور سفارتی تعلقات میں بھی پانی اہم کردار ادا کرتا ہے۔دھرتی ماں پر پانی کا وجود سمندروں ، دریاؤں اور ندی نالوں کے بہاؤ کی صورت نظر آتا ہے ۔ملکوں کی جغرافیائی تقسیم کی صورت میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ملک دریا کے منبع کے قریب واقع ہے یعنی وہ دریا کے بالائی حصے میں واقع ہے جہاںسے دریا کا آغاز ہوتا ہے جبکہ دوسرا ملک اسی دریا کے زیریں حصے کی طرف واقع ہے۔دریا کی بالائی حصے میں واقع ملک کے پاس اس پانی کو استعمال کرنے کا اسے روکنے کا اسے چھوڑنے کا اختیار زیادہ ہوتا ہے یہی صورتحال کچھ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود ہے۔ اس خطے میں بہنے والا سب سے بڑا دریا، دریائےسندھ کا منبع اگرچہ چین کا علاقہ تبت ہے لیکن یہ بھارت کے زیر انتظام جموں اور کشمیر میں بہتے ہوئے پاکستان کے علاقے میں داخل ہوتا ہے ۔ دریائےسندھ کے دوسرے معاون دریابھی بھارت کے زیر انتظام علاقوں سے بہتے ہوئے پاکستان کے طرف آتے ہیں۔کیونکہ بھارت دریائے سندھ کے بالائی حصے میں واقع ہے اس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ پانی کو روک سکتا ہے چھوڑ سکتا ہے تو بھارت اپنی ہٹ دھرمی اور کشیدگی اور انتشار پیدا کرنے کی فطرت سے باز نہیں آتا ۔ اسی تنازع کو حل کرنے کیلئے 1960 میں سندھ طاس کا معاہدہ ورلڈ بینک کے تعاون سے عمل آیا جس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی منصفانہ تقسیم اور کسی بھی تنازعے کا پرامن حل تلاش کرنا تھا ۔ایک انڈس کمیشن بنایا گیا اور اس کے تحت دونوں ملکوں کا واٹر کمشنر تعینات کیا گیااس معاہدے کا پس منظر سبھی کو معلوم ہے کہ تین مشرقی دریاؤں ستلج ، بیاس ،راوی پر بھارت کو اختیار دیا گیا ہے اور تین مغربی دریاوں سندھ چناب اورجہلم پاکستان کے پاس آتے ہیں۔ ان تین مغربی دریاؤں کو بھی پاکستان 90 فیصد تک استعمال کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور پاکستان کو دیے جانے والے تین مغربی دریاؤں کے پانی کو بھارت چند تکنیکی شرائط کے ساتھ استعمال کرسکتا ہے ۔ انڈس واٹر ٹریٹی کو عالمی سطح پر پانی کاسب سے کامیاب معاہدہ کہا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگیوں اور جنگوں کے باوجودیہ معاہدہ برقرار رہا اس میں تھوڑی بہت اونچ نیچ ضرور ہوتی رہی لیکن یہ معاہدہ معطل نہیں ہوا۔پہلگام واقعے کے بعد اپریل 2025ءمیں بھارت نے پانی کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی اور انڈس واٹر ٹریٹی اپنے تئیں معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔انڈیا کی یہ آبی دہشت گردی پاکستان کیلئے کسی بھی طرح قابل قبول نہیں یہ معاہدہ پاکستان کی ریڈ لائن ہے ۔پاکستان نے عالمی ثالثی عدالت یا کورٹ آف آربیٹریشن سے رجوع کیاکورٹ آف آربیٹریشن کا فیصلہ 27جون 2025 کو آیا جس میں پاکستان کی جیت ہوئی ہے۔ کورٹ آف آربیٹریشن نے جوواضح اور دو ٹوک فیصلہ دیا ہے اس کے مطابق انڈس واٹر ٹریٹی بدستور موثراور قابل عمل ہے کوئی ایک فریق اپنی مرضی اور منشا کے مطابق نہ اس کو معطل کر سکتا ہے نہ اس کی کسی شق میں ترمیم کر سکتا ہے نہ اس کا متن تبدیل کر سکتا ہے، جب تک دونوں فریق متفقہ طور پر معاہدے کو ختم نہ کریں یا اس کے کسی متن کو تبدیل نہ کرنا چاہیں یہ نافذ العمل رہے گا۔ پاکستان کو یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی تنازع کی صورت میں عالمی عدالت سے رجوع کرے۔یہ واضح طور پر بھارت کے موقف کی تردید ہے ۔انڈیا پاکستان کے پانی کو نہیں روک سکتا ثالثی عدالت کا فیصلے سے پاکستان کا موقف مضبوط ہوا ہے یہ پاکستان کی اخلاقی جیت ہے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ملکوں کے واٹر کمشنرز معاہدے کے مطابق آبی اعداد و شمار کا دیانت دارانہ تبادلہ کریں زیادہ ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے دونوں ملکوں کی جانب سے مقرر کردہ واٹر کمشنرز کا ایک اہم فریضہ یہ ہے کہ وہ ہائیڈرولوجیکل (Hydrological) یعنی آبی اعداد و شمار کا باہمی تبادلہ کریں۔ یہ معلومات نہ صرف زراعت اور معیشت کیلئےاہم ہیں بلکہ ماحولیاتی تبدیلیوں، خشک سالی اور سیلاب جیسے خطرات سے نمٹنے کیلئے بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ تاہم، ایک رپورٹ کے مطابق، دونوں ممالک کے درمیان محض 40فیصد معلومات کا ہی تبادلہ ہوتا ہے، جو باہمی اعتماد اور مؤثر آبی نظم و نسق کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا پاکستان کے طرف سے مقرر کیے گئے ایک سابق واٹر کمشنر کا کہنا ہے کہ بھارت نے کبھی پوری معلومات پاکستان کیساتھ سانجھی نہیں کی اور اس کا رویہ امن کے دنوں میں مکمل تعاون پر مبنی نہیں رہا ۔ بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ انڈس واٹر ٹریٹی کبھی بحال نہیں ہوگی ۔ عالمی عدالت میں اپنے موقف کی شکست کے بعد بھی بھارت کا رویہ رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا والا ہے بھارت ایک بگڑے ہوئے ضدی بچے کی طرح ہٹ دھرمی پر اترا ہوا ہے اور بظاہر عالمی عدالت کے اختیارات کو بھی چیلنج کر رہا ہے۔ شاید اسکے پیچھے وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کا مؤقف فتح سے ہم کنار ہوا اور مودی سرکار کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب ہوا ۔ا مید کرتے ہیں کہ یہ معاملہ تعاون اور خیر سگالی کے ساتھ حل ہو جائے گا ورنہ تاریخی سچائی یہ ہے کہ پانی بند کرنے والے ہمیشہ ذلت ہی اٹھاتے ہیں۔