انصار عباسی
اسلام آباد :…کوٹ لکھپت جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنمائوں کی جانب سے حکومتی اتحاد سے مذاکرات کی حمایت کے صرف چند روز بعد، پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان نے واضح الفاظ میں اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ’’مذاکرات کا وقت ختم ہو چکا ہے۔‘‘ 8؍ جولائی کو اڈیالہ جیل سے جاری کیے گئے ایک سخت لہجے پر مبنی پیغام میں عمران خان نے اپنی ہی پارٹی قیادت کی مفاہمانہ کوششوں کو عملاً ویٹو کر دیا۔ انہوں نے ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کیخلاف ایک ’’فیصلہ کن جدوجہد‘‘ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 5؍ اگست سے ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ یہ ان کی گرفتاری کو دو برس مکمل ہونے کا دن ہے۔عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ اب کسی سے بھی مزید کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، اب صرف سڑکوں پر احتجاج ہو گا تاکہ قوم زبردستی مسلط کردہ کٹھ پتلی حکمرانوں سے نجات حاصل کر سکے۔ عمران خان کا یہ اعلان کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کے پانچ مرکزی رہنمائوں، بشمول شاہ محمود قریشی، کے اُس پیغام سے یکسر متصادم ہے، جس میں انہوں نے سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ سے غیر مشروط مذاکرات کی اپیل کی تھی۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے اس اپیل کو سیاسی عدم استحکام کے دور میں قومی اتفاق رائے کی راہ ہموار کرنے کا ایک نادر موقع قرار دیا تھا۔ پی ٹی آئی رہنمائوں کے خط پر حکومتی حلقوں، خاص طور پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے تو اس خط کو ’’دانشمندانہ اور اہم‘‘ قرار دیتے ہوئے دونوں فریقین سے کہا تھا کہ وہ موقع غنیمت جانیں اور جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں غیر مشروط مذاکرات شروع کریں۔تاہم، عمران خان کے تازہ ترین بیان نے فی الوقت ان امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ ان کا اعلان اس اندرونی تضاد کو نمایاں کرتا ہے جو طویل عرصے سے پی ٹی آئی کی صفوں میں موجود ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، اس نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ پارٹی میں کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ بات چیت ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے، لیکن اگر عمران خان ’’نہ‘‘ کہہ دیں تو دروازہ بند ہی رہے گا۔