ناکام فوجی بغاوت کے بعد مغربی ملکوں نے دہرے معیار کی انتہا کردی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہ فرانس، جہاں چھہ ماہ سے ایمرجنسی نافذ ہے، اسی ملک کا وزیر خارجہ، ترکی میں ہنگامی حالت کے نفاذ کی مخالفت کر رہا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک عمل خود اپنے لئے تو ٹھیک ہو، وقت کی ضرورت ہو لیکن وہی کام کوئی دوسرا کرے تو وہ مجرم اور ناپسندیدہ ٹھہرے؟ یورپی یونین کی جانب سے بھی صدر طیب اردوان کو قانون کی بالادستی، انسانی حقوق کی پاسداری اور شخصی آزادی کے مشورے دئیے جارہے ہیں۔ مغربی ممالک پوری کوشش میں ہیں کہ دنیا کو کسی طور یہ تاثر نہیں جانا چاہئے کہ ناکام بغاوت میں اردوان حکومت کی عوامی حمایت کابھی کوئی عنصر موجود ہے۔ بدقسمتی سے بعض ہمارے معروف دانشور بھی، دانستہ یا غیر دانستہ حقائق جانے بغیر اس مغربی پروپیگنڈے کا اثر پوری طرح قبول کررہے ہیں۔ کسی تحقیق و تفتیش کے بغیر وہ وہی کچھ رپورٹ کر رہے ہیں، جو مغربی میڈیاایک خاص مقصد کے تحت کر رہا ہے۔ کوئی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے، بے گناہ ترکوں پر ٹینک چڑھانے والوں کو عام معافی دینے کے مشورے دے رہا ہے، تو کوئی یہ دلیل پیش کر رہا ہے کہ ’’ریاست غصّے سے نہیں چلتی ‘‘۔ یہاں تک کہ ترک حکومت کے بعض اقدامات کو ’’جوابی بغاوت‘‘ سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ اور کچھ دانشور ایسے بھی ہیں جو ترکی میں کسی نئی فوجی بغاوت کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ البتہ اردوان بلند بانگ کہہ رہے ہیں کہ منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ملک سے غداری ہے اور غداروں کو اسکی قیمت چکانا پڑے گی۔ ماضی میں بھی(2012 میں) حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کرنے پر ترک عدالتیں، تین سابق جرنیلوں سمیت 330فوجی اہلکاروں کو سزائیں سنا چکی ہیں۔ ہمارے ان دوستوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ ترکی ہے، پاکستان نہیں کہ جہاں آمروں کو( مرنے کے بعدبھی) توپوں کی سلامی دے کر رخصت کیا جاتاہے۔ ترکی وہ ملک ہے، جہاں جرم کرنے پر کسی فوجی کا مقدمہ سول کورٹس میں چلانے کا قانون بھی موجود ہے اور اس قانون کی منظوری کا سہرا بھی طیب اردوان ہی کے سر جاتا ہے۔ ایک ایسا ملک، جہاں مارشل لا کی ایک تاریخ رہی ہو، وہاں اس نوعیت کا قانون صرف وہی شخص بنا سکتا تھا، جس کو یقین ہو کہ قوم اس کی پشت پر موجود ہے۔ کیا کسی نے غور کیا کہ آخر وہ کیا وجہ ہے کہ اردوان حکومت کی انقلابی معاشی ترقی اور ہر محاذ پر شاندار کامیابیوں کے باوجود، مغربی ممالک اور ان کا میڈیا اردوان سے خوش کیوں نظر نہیں آتا، وہ ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت دینے پر کیوں تیار نہیں؟ دراصل، ترکی کے یورپی ہمسایوں کاصرف ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ وہ طیب اردوان کو صرف ایک مسلمان بنیادپرست کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ ترکی میں مسلمانوں کے دینی تشخص کوپنپتا نہیں دیکھ سکتے، اسلامی تہذیب و ثقافت کا احیا برداشت نہیں کر پا رہے۔ مغربی میڈیا، اردوان کو جمہوریت پسند حکمراں کے بجائے دائیں بازو کے ایک ایسے رہنما کے طور پر پیش کرتا ہے کہ جس میں قدامت پسندی کے تمام تر جراثیم موجود ہیں۔حالانکہ موجودہ صورتحال میں ترکی میں جو کچھ ہوا،اگر اسے سیکولر اور مذہبی گروہوں کی لڑائی کے بجائے، خالصتاًجمہوری اور آمرانہ طاقتوں کی کشمش کے تناظر میں دیکھا جاتاتو یہ زیادہ قرین انصاف ہوتا۔
ترکی کی منتخب حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کوئی نئی بات نہیں۔ کافی عرصے سے مغربی میڈیا کی یہی روش ہے۔2014 ءمیں بھی، یوکرائن کے درجنوں فوجیوں کی لاشوں کی تصاویر اس کیپشن کیساتھ جاری کی گئیں کہ’’یہ اُن ترک فوجیوں کی لاشیں ہیں، جنہیں اردوان حکومت نے ہلاک کیا ہے‘‘۔ پھر2015 ءمیں مغربی میڈیا میں ایک خبر کا بھی بڑا چرچا ہوا، جس میں، ترکی کی اپوزیشن پارٹی کے ایک رہنما کا کہنا تھا کہ صدارتی محل کے ٹوائلٹ کی سیٹیوں پر سونے کا پانی چڑھا ہے۔طیب اردوان نے اپنے حریف کو محل کا دورہ کرنے کی دعوت دی اورساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر کسی کوٹوائلٹ میں سونے کی سیٹیں مل جائیں، تو وہ صدارت کی کرسی چھوڑ دیں گے۔بعد میں اپوزیشن رہنما اپنے بیان سے یہ کہہ کر مکرگئے کہ ان کا مطلب صرف یہ تھا کہ صدارتی محل پر بہت زیادہ پیسا لگایا گیا ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ مغربی ملکوں کے وہ مفکرین، جو نسبتاً اعتدال پسند اور غیر جانبدار سمجھے جاتے ہیں، اردوان کے معاملے میں انہیں بھی خود کو غیر جانبدار رکھنابہت مشکل ہو جاتا ہے مثلاً معروف مغربی مصنف راجر اسکروٹن کے یہ الفاظ دیکھیں ’’ترک صدر طیب اردوان کے حامیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے تین مرتبہ اکثریت کے ساتھ انتخابات جیتے ہیں لیکن وہ بنیادی آزادی، جسے ہم اہمیت نہیں دیتے، اُن کے اقتدار میں آنے سے بڑھی نہیں بلکہ کم ہوئی ہے‘‘۔ اسی طرح ناکام بغاوت کے بعد، پچھلے دنوں ایک برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنے ایک مضمون کی سرخی یوں جمائی ’’ ترکی کا بے رحم صدر ‘‘۔ یوں تو آپ لفافہ دیکھ کر بھی، خط کا مضمون بھانپ سکتے ہیں۔
اردوان نے ملک کے بعض اداروں میں خواتین کے حجاب پہننے پر عائد پابندی ختم کی، تو مغربی میڈیا میں ایک طوفان برپا ہو گیا۔کہا گیا کہ اردوان نے ترکی کے سیکولر آئین کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔انہیں دقیانوسی، سخت گیر، قدامت پسند اور مطلق العنان حکمراںکے القابات سے نوازا گیا، اور ناکام بغاوت کے بعد بھی مغربی میڈیا انہیں ایک ایسے ہی ’’جابرشخص‘‘ کے طور پر پیش کر رہا ہے، جو اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے کچھ بھی کرسکتاہے۔ گرفتاریوں اور حکومتی اقدامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اور غیر متوقع طور پر باغیوں کی مذمت کی بجائے، ان سے ہمدردی جتائی جارہی ہے۔ یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ باغیوں کی آڑ میں اردوان اپنے سیاسی حریفوں کو نشانہ بنائیں گے۔
لیکن کوئی اس مغربی دنیاسے پوچھے کہ آخرآپ کو سیکولرآئین میں سلب کی گئی آزادیاں کیوں نظر نہیں آتیں؟ اگر آپ اپنی مرضی کے لباس اور طرزِ زندگی اختیار کرنے میں آزاد ہیں، تو یہی حق ترک عوام کوکیوں نہیں دیا جا سکتا ؟سیکولرآئین کی گردان کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ2010ءمیں ترکی میں ایک ریفرنڈم کروایا گیاتھا، جس میں اٹھاون فیصد افراد نے فو ج کے بنائے ہوئے آئین میں ترامیم کے حق میں ووٹ دیا۔ اور اُس موقع پر، جب کسی نے ایک ترک شہری سے پوچھا کہ ’’کیاآپ کمال اتاترک کے دیے ہوئے آئین کو بدل دیں گے؟‘‘ تو اس کا جواب تھا۔ ’’اتاترک بلا شبہ بڑاآدمی تھا، لیکن وہ(نعوذبااللہ) خدا نہیں تھا۔‘‘اسی طرح، ناکام فوجی بغاوت کے اگلے دن ترکی کی کرنسی ایک دم نیچے آگئی۔ کسی صحافی نے ایک ترک تاجر سے دریافت کیا،’’کیا آپ کو معلوم ہے، ترکی کی کرنسی (لیرا) کی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پانچ اعشاریہ پانچ فی صد کی ریکارڈ کمی ہوئی ہے؟‘‘اس پر ترک تاجر کا جواب تھا۔ ’’ یہ تو مجھے معلوم نہیں، لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ دنیا بھر میں ترکوں کی عزت اور قدر ومنزلت میں جتنا اضافہ اب ہوا ہے، شاید اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ آج ترکوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ جمہوریت پسند قوم ہیں اور آمریت سے نفرت کرتے ہیں۔‘‘
بلاشبہ، طیب اردوان کے کئی اقدامات ایسے ہیں، جن پر اعتراض کیاجاسکتاہے اوروہ یقینا جمہوریت سے مطابقت بھی نہیں رکھتے ان کے بچوں اورتین وزرا پرکرپشن کے الزامات بھی لگائے گئے۔ اُن پر شاہانہ طرزِ زندگی اور قومی دولت بے دریغ خرچ کرنے کا بھی الزام ہے اوران تمام باتوں میں وزن ہو سکتا ہے، لیکن ان ساری باتوں کے باوجود، لوگوں کو یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ ترکی کی معیشت میں تاریخ کی ریکارڈ ترقی بھی اردوان ہی کے دورِ حکومت میں ہوئی ہے،لہٰذا اردوان کی قسمت کا فیصلہ کرنا، نام نہاد دانشوروں یا ان کے ہمسایہ ملکوں کا کام نہیں بلکہ یہ صرف اور صرف ترک عوام کا حق ہے۔اُن ترکوں کا، جن پر کسی عالمی ادارے کی ایک پائی ادھار نہیں۔کاش وہ دن بھی آئے، جب پاکستان کے حکمرانوں کو بھی کبھی ایسی ہی جرات دکھانے کی ہمت ہوسکے۔