• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی حکومت نے بجٹ26-2025ءمیں ایکسپورٹ فیسلی ٹیشن اسکیم کے تحت درآمد کئے جانے والے کاٹن یارن پر 18فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا ہے جس سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ وزیر خزانہ کی طرف سے اس حوالے سے دی گئی وضاحت کے مطابق بجٹ 25-2024 ءمیں ایکسپورٹ فیسلی ٹیشن اسکیم کے رجسٹرڈ صارفین کیلئے مقامی خریداری پر سیلز ٹیکس عائد کیا گیا تھا جس سے کپاس کے مقامی کاشتکاروں اور سپننگ یونٹس کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ درآمدی دھاگہ سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ تھا۔ اس طرح حکومت نے اپنی طرف سے کپاس کے مقامی کاشتکاروں اور سپننگ ملز کو لیول پلیئنگ فیلڈ مہیا کرنے کی کوشش کی ہے۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں وزیر اعظم نے وفاقی وزیر احسن اقبال کی سربراہی میں وفاقی وزراء اور سیکرٹریز و دیگر اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل جو کمیٹی بنائی تھی۔ اس نے دو ماہ کی طویل مشاورت سے جو سفارشات مرتب کی تھیں یہ فیصلہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ علاوہ ازیں اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کپاس، کاٹن یارن اور کاٹن فیبرک کو مکمل طور پر ایکسپورٹ فیسلی ٹیشن اسکیم سےنکال دیا جائے۔ اس طرح ایکسپورٹرز کو اپنی خام مال کی ضرورت کے لئے درآمد کئے جانے والے خام مال پر سیلز ٹیکس دینا پڑے گا جبکہ اس پر انکم ٹیکس، کسٹم، ریگولیٹری ڈیوٹی اور اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی بھی عائد ہو گی۔ اس طرح ایکسپورٹ انڈسٹری کے لئے درآمدی خام مال کا حصول بالکل ہی قابل عمل نہیں رہے گا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات پہلے ہی کئی سال سے دبائو کا شکار ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں پیداواری لاگت کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اس سے نہ صرف عالمی منڈی میں پاکستانی برآمد کنندگان کو اپنی مسابقتی پوزیشن برقرار رکھنے کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے بلکہ اس سیکٹر میں نئی سرمایہ کاری بھی رک گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ ترا سپننگ ملز کے پاس پرانی مشینری ہے جس پر تیار شدہ یارن کا معیار کمتر اور قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ اسلئے مقامی دھاگہ خرید کر ویلیو ایڈڈ گارمنٹس بنا کر بیرون ملک برآمد کرنا قابل عمل نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ویلیو ایڈڈ گارمنٹس بنانے کیلئے انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق یارن کی ضرورت ہوتی ہے اور پاکستان میں زیادہ تر اسپننگ ملز اس معیار کا یارن تیار ہی نہیں کرتی ہیں۔ اس طرح لامحالہ برآمدکنندگان کو برآمدی آرڈرز کی تکمیل میں مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے نتیجے میں برآمدات میں کمی کا خطرہ ہے۔ یہی وہ مسائل ہیں جس کی وجہ سے ماضی میں حکومت نے ای ایف ایس کے تحت ڈیوٹی فری یارن امپورٹ کی اجازت دی تھی۔حکومت کے پاس اب بھی یہ آپشن موجود ہے کہ تصدیق شدہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز جو کہ اپنی پیداوار کا 80 فیصد یا اس سے زیادہ برآمد کرتے ہیں انہیں کاٹن یارن کی درآمد کے ساتھ ساتھ مقامی مارکیٹ سے خریداری پر سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے۔ اس سے ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹرز کے لیے پیداواری لاگت میں کمی آئے گی اور مقامی اسپنرز کو نقصان پہنچائے بغیر ان کی مسابقت میں اضافہ ہو گا۔ یہ پالیسی بنگلہ دیش اور ویتنام جیسے ممالک میں پہلے ہی کامیابی سے نافذ العمل ہے جہاں حکومتیں ترجیحی بنیادوں پر برآمدی صنعتوں کو سپورٹ کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایف بی آر سہ ماہی بنیادوں پر تصدیق شدہ برآمد کنندگان کی فہرست جاری کر سکتا ہے جس سے اس سہولت کے غلط استعمال کو روکا جا سکے گا۔ علاوہ ازیں کپاس کی مقامی پیداوار بڑھانے کے لئے بہتر زرعی طریقوں کو اپنانے کے لئے کاشتکاروں جبکہ جدید مشینری کی خریداری کے لئےا سپننگ ملوں کو سبسڈی یا کم سود پر قرضے فراہم کئے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں برآمدی مصنوعات میں استعمال نہ ہونے والے مخصوص یارن کی درآمد پر بھی پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور فرسودہ طریقوں کی وجہ سے پاکستان میں کپاس کی پیداوار پہلے ہی 15 ملین گانٹھوں سے گھٹ کر 5.5ملین گانٹھوں پر آ گئی ہے۔ اسلئے مقامی پیداوار میں کمی سے پیدا ہونے والے خام مال کی قلت کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے کاٹن یارن کی درآمد پر پابندیاں نرم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ کاٹن یارن کی درآمد پر خرچ ہونے والا ڈیڑھ ارب ڈالر کا زرمبادلہ بچایا جا سکے۔ علاوہ ازیں کاٹن یارن اور ٹیکسٹائل برآمدات میں مقابلے کے لئے ازبکستان اور چین جیسے علاقائی حریفوں سے مسابقت برقرار رکھنے کے لئے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے لئے بجلی کے نرخوں کو سات سے نو سینٹ فی کلوواٹ فی گھنٹہ اور گیس کی قیمت کو پانچ سے چھ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تک کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو درپیش سرمائے کی قلت کا خاتمہ کرنے کے لئے جی ایس ٹی ریفنڈز کی واپسی 72 گھنٹے کے طے شدہ وقت میں یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس طرح توانائی کے اخراجات اور ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر سے پیداواری لاگت میں ہونے والے دس سے پندرہ فیصد اضافے کو باآسانی کم کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس معاملے پر بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات کو پالیسی کا حصہ بنائے اور ان سفارشات پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے کمیٹی کو مزید اختیارات دیئے جائیں۔ اس طرح نہ صرف فریقین کے مابین اعتماد سازی میں اضافہ ہو گا بلکہ اس پلیٹ فارم کو ٹیکسٹائل پالیسی کی تشکیل کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین