تحریر: نرجس ملک
ماڈل: جیا ملک
ملبوسات: Sab Textile by Farrukh Ali
آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر
کوآرڈی نیشن: محمّد کامران
عکّاسی: ایم۔ کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
ہونا تو یہی چاہیے، ہماری زندگیوں میں صرف اُن لوگوں کی اہمیت اور جگہ ہو، جو اپنے دل میں ہمارے لیے عزت و احترام، صِدق و اخلاص، نیکی و بھلائی اور مہر و محبّت کے احساسات و جذبات رکھتے ہوں۔ بات کریں یا بحث مباحثہ، تہذیب و شائستگی کا دامن مضبوطی سے تھامے رہیں اور ہمارے سامنے ہی نہیں، پیچھے بھی ہماری عزت و توقیر کا پورا لحاظ رکھیں۔ ادب و تمیز سے خامیوں کی نشان دہی کرسکیں، تو خوبیوں، اوصاف کی توصیف کا بھی حوصلہ رکھتےہوں۔
لیکن..... یہ بھی سچ ہےکہ اگر اقرباء، دوست احباب کے لیے اِن اوصاف کومعیار، پیمانہ مان لیاجائے، تو پھر شاید ہمیں زندگی تنہا یا زیادہ سے زیادہ چند ایک افراد کے سنگ ہی گزارنی پڑے کہ فی زمانہ ایسے سنگی ساتھی تو درکنار، قرابت دار بھی عُنقا ہیں۔ کوئی دَور تھا کہ ’’صبر و شُکر‘‘ کے خمیر سے گندھی، لُطف و کرم کے گارے مٹی سے تخلیق شدہ مُورتیں، مجسّم صُورتیں عام تھیں۔ اب تو یوں جانیے کہ ہر شخص کی اپنی اپنی جنگ ہے، ہر کوئی کسی نہ کسی محاذ پر ڈٹا ہے۔ سب کی اپنی اپنی جدوجہد، تگ دو، اپنی اپنی درماندگی و مشقّت ہے۔
میکسم گورکی نے لکھا کہ ’’ہمیں لوگوں پہ رحم کرنا چاہیے کہ سب لوگ بے بس، غم گین ہیں۔ زندگی سب ہی کے لیے مشکل ہے۔‘‘ اور کسی اور نے لکھا کہ ’’سب کی اپنی اپنی تھکن ہے۔ کوئی رشتوں سے تھکا ہوا ہے، تو کوئی لہجوں سے اُکتایا ہوا۔ کوئی ذمّے داریوں سے نڈھال ہے، تو کوئی ضرورتوں سے پریشان۔ کوئی اپنی نفسیاتی الجھنوں سے بھاگ رہا ہے، تو کوئی رُوح کی کھونٹی پر لٹکی خواہشوں کی گٹھری سے۔‘‘
وہ ایک شعر ہے ناں؎ ’’لگتا ہے، کئی راتوں کا جاگا تھا مصوّر…تصویر کی آنکھوں سے تھکن جھانک رہی ہے۔‘‘ تو آج تو جدھر دیکھیے، ہر ایک چہرے سے ایک کوفت، کسل مندی، تکان ہی ہویدا ہے۔ لوگ مُسکرانا بھولتے جارہے ہیں۔ پہلے کس قدر عام روایت تھی کہ اجنبیوں، ناشناساؤں کی آنکھوں میں بھی ایک دوسرے کےلیے نرمی و ملائمت کی چمک دمک، ہونٹوں پہ ایک دھیمی سی ملکوتی مسکراہٹ کی ہمک رہتی تھی۔ اب تو بے زاری، اوازاری گویا قومی علامت بن کے رہ گئی ہے۔
رُتیں بدلتی تھیں، تو دل کے موسم بھی آپ ہی آپ خوش گوارہوجاتےتھے۔اب توگرمی، سردی، برکھا، بہار، خزاں کوئی موسم، دل آنگن میں پھول کِھلاتا ہے، خوشبوئیں بکھیرتا ہے، نہ ہی رُوح کے تار چھیڑتا، آپ ہی آپ گانے گنگنانے، تانیں اُڑانے پہ آمادہ کرتا ہے۔ کبھی ساون رُت کی آمد کے ساتھ میگھ ملہار (خوشی کا راگ) برکھابرسات کےرنگارنگ گیت، نغمے، غزلیں، باغوں میں پینگیں، جُھولے، ست رنگی چُنریاں، قوسِ قزح سے پہناوے اور انواع و اقسام کے پکوان گویا لازم و ملزوم ہوتے تھے۔
بقول جاں نثار اختر ؎ ’’برکھا کی تو بات ہی چھوڑو، چنچل ہے پُروائی بھی…جانے کس کا سبز دوپٹا پھینک گئی ہے دھانوں پر۔‘‘ اور نذیر بنارسی نے کہا ؎ ’’کتنی شرمیلی، لجیلی ہے ہوا برسات کی…مِلتی ہے اُن کی ادا سے، ہر ادا برسات کی…جانے کس مہیوال سے آتی ہے ملنے کے لیے… سوہنی گاتی ہوئی سوندھی ہوا برسات کی…اب کی بارش میں نہ رہ جائے کسی کے دل میں میل…سب کی گگری دھوکے بھر دے، اے گھٹا برسات کی۔‘‘
ناصر کاظمی کو ساون رُت کچھ یوں مسحور کرتی تھی ؎ ’’پھر ساون رُت کی پون چلی، تم یاد آئے…پھر پتّوں کی پازیب بجی، تم یاد آئے…پھر کونجیں بولیں، گھاس کے ہرے سمندر میں…رُت آئی پیلے پھولوں کی، تم یاد آئے…پھر کاگا بولا، گھر کے سُونے آنگن میں…پھر امرت رس کی بوند پڑی، تم یاد آئے۔‘‘
تو خالد معین کو تو پہلی پہلی بارش نے دیوانہ سا ہی کردیا۔ ؎ ’’رقص کیا، کبھی شور مچایا پہلی پہلی بارش میں…مَیں تھا، میرا پاگل پن تھا، پہلی پہلی بارش میں…پیہم دستک پر بوندوں کی، آخر اُس نے دھیان دیا…کُھل گیا دھیرے دھیرے دریچہ، پہلی پہلی بارش میں… آنے والے سب دِنوں کی شادابی، اُس سے ہے…آنکھوں نے جو منظر دیکھا، پہلی پہلی بارش میں…شام پڑے سوجانے والا، دیپ بُجھاکر یادوں کے…رات گئے تک جاگ رہا تھا، پہلی پہلی بارش میں…جانےکیا کیا خواب بُنے تھے، پہلے ساون میں مَیں نے … جانے اُس پر کیا کیا لکھا، پہلی پہلی بارش میں۔‘‘ اور بقول احمد عظیم ؎ ’’حُسن پری ہو ساتھ اور بے موسم کی بارش ہو جائے…چھتری کون خریدےگا، پھر جتنی بارش ہوجائے۔‘‘تو کچھ ایسی ہوتی تھیں، ہماری بارشیں، برکھا، میگھا، ساون کی بدلیاں، مینہ برسنے کی رُتیں۔
اِس برس کی برسات کے ساتھ تو جیسے آفات، سانحات، حادثات اور غیرمعمولی واقعات نے کوئی گٹھ جوڑسا کرلیا ہے۔ کچھ اچھا سُننے کو کم کم ہی مل رہا ہے، لیکن ہم تو ازل سے اِسی روایت کے پاس دار ہیں کہ اپنی بزم کو رُتوں سے ہم آہنگ رنگ و انداز ہی سے مرصّع و مسجّع کریں گے۔سو، آج بھی محفل البیلی، چھیل چھبیلی، رنگ رنگیلی برسات ہی کی مناسبت سے کچھ رنگارنگ پہناووں سے سجی ہے۔
ذرا دیکھیے، سیاہ فٹڈ ٹراؤزر کے ساتھ ملٹی شیڈڈ پھول دار فراک کا جلوہ ہے، تو سیاہ ٹواؤزر ہی کے ساتھ ڈارک پِیچ رنگ کی قدرےلانبی جیکارڈ قمیص کی دل کشی بھی کمال ہے۔
الفابیٹیکل ٹیکسچر سے مزیّن پٹیالہ اسٹائل شلوار کے ساتھ، گول دامن کی اسٹائلش قمیص کا انداز جداگانہ ہے، تو اسکن رنگ پرنٹڈ ٹراؤزر کے ساتھ لہریئے دار پرنٹ کے پیپلم اور اِسی طرح ایک دوسرے انداز میں خُوب صُورت لیس ورک کے ساتھ سیاہ پرنٹڈ پیپلم کے حُسنِ دلاآویز کے بھی کیا ہی کہنے، جب کہ سیاہ رنگ کیولاٹ کے ساتھ مسٹرڈ رنگ شرٹ کی ہم آمیزی بھی خُوب ہی غضب ڈھا رہی ہے۔
گر، اِردگرد کے لوگوں، اطراف کے مکینوں میں سے کچھ ہم مزاج، مثبت سوچ کے حامل افراد کو چُن لیا جائے یا کم ازکم صرف اُن ہی کی باتوں کو قابلِ توجّہ گردانا جائے۔ چیزوں کے بہتر، روشن پہلوؤں، تعمیری سمتوں پرزیادہ نگاہ کی جائے، تو کچھ عجب نہیں کہ ہم جلد ہی کم پر قناعت کرنا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہونا شروع کردیں۔ تو بس، آغاز اِسی بزم سے کر دیکھیں۔ یہ ہلکے پُھلکے، بہت کم قیمت لیکن سُتھرے اجلے رنگ وآہنگ آپ ہی کے لیے ہیں۔
جو چاہیں، چُن لیں اور پھرکیف بھوپالی کی ہم آواز ہوجائیں کہ ؎ ’’ہائے لوگوں کی کم فرمائیاں… تہمتیں، بدنامیاں، رسوائیاں…کیا زمانے میں یوں ہی کٹتی ہے رات…کروٹیں، بے تابیاں، انگڑائیاں…کیا یہی ہوتی ہے شامِ انتظار…آہٹیں، گھبراہٹیں، پرچھائیاں…ایک پیکر میں سمٹ کر رہ گئیں…خُوبیاں، زیبائیاں، رعنائیاں…زخم دل کے پھر ہرے کرنے لگیں…بدلیاں، برکھا رُتیں، پُروائیاں…میرےدل کی دھڑکنوں میں ڈھل گئیں …چوڑیاں، موسیقیاں، شہنائیاں۔‘‘