ہمارے حکمرانوں کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے اس ملک کو دنیا کی بہترین اور جفاکش افرادی قوت سے نوازا ہے۔ یہ ملک اتنا خوش قسمت ہے کہ اسے اب بھی بڑی تعداد میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ملک سمجھا جاتا ہے،جو اپنی غیر ملکی کمائی کا ایک اہم حصہ وطن بھیجتے ہیں اور ہمارے وفاقی محاسبین کو اپنے مالی خسارے قابو میں رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ حالیہ مالی سال کے اختتام پر بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر ریکارڈ سطح38.3ارب ڈالر تک پہنچ گئیں،جو اسی عرصے کے دوران ملک کی دیگر تمام برآمدات کی کل مالیت سے 6ارب ڈالر زیادہ ہیں۔یہ فرق اس وقت اہم ثابت ہوگا جب پاکستان سال کیلئے اپنا کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس تیار کرے گا۔توقع ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں فاضل رقم آئے گی،حالانکہ مالی سال 2025کے تمام 12مہینوں کا حتمی ڈیٹا ابھی تک جاری نہیں ہوا۔ترسیلات زر میں 26.6فیصد اضافہ اسٹیٹ بینک کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو14,5ارب ڈالر تک بڑھانے میں بھی مدد گار رہاجو کہ سال کے اختتام تک مقرر کردہ ہدف 14ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔اگر اسے ایک مختلف زاویے سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان جن لوگوں کو دنیا کو ”برآمد“کرتا ہے وہ ملک کیلئے زرمبادلہ کا اس سے کہیں زیادہ قیمتی ذریعہ ہیں جتنا کہ اس کی صنعتیں اور خدمات کا شعبہ عالمی معیشت کو فراہم کرتاہے۔یہ صورتحال مثالی نہیں مگریہی حقیقت ہے۔اسی لئے ایک متعلقہ پیش رفت پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ان ترسیلات نے پاکستان کے بیرونی کھاتوں کو مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیااور 10سال سے زائد عرصے کے بعد پہلی بار کرنٹ اکاؤنٹ میں فاضل رقم حاصل ہوئی۔اس کے ساتھ ساتھ ان رقوم نے افراط زر کے دباؤ میں کمی اور زرمبادلہ میں نسبتاََ استحکام لانے میں مدددی۔بیرون ملک سے ترسیلات زر میں اضافے کے اس دعوے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ غیر ممالک میں ملازمت کرنے والے پاکستانیوں کو ترسیلات زرمیں آسانیاں فراہم کرنے کیلئے حکومت کی تیار کردہ پالیسیاں موثر ثابت ہو رہی ہیں اور حکومت کی جانب سے ہنڈی کے خلاف کریک ڈاؤن،رسمی ذرائع کو ترغیبات اور حقیقت پسندانہ شرح مبادلہ کے اقدامات ثمر دے رہے ہیں۔لیکن ترسیلات زر میں اضافہ ہوتے ہی حکومت نے اس اضافے کے جاری رکھنے کیلئے محب وطن پاکستانیوں کو مزید سہولتیں،ترغیبات اور مراعات فراہم کرنے کے بجائے اسٹیٹ بینک کے مطابق،حکومت نے بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کو بیرون ملک سے سرکاری ذرائع کے ذریعے ترسیلات زر لانے کی سہولت دینے پر دی جانے والی مراعات میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے ایک قدم پیچھے ہٹ کر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ یہ ترسیلات اس بات کا ایک اور ثبوت ہیں کہ پاکستان آج بھی اپنے غیر موجود شہریوں سے وہ بوجھ اٹھوانا چاہتا ہے جسے گھریلو پالیسی نہیں سنبھال پا رہی ۔ ترسیلات زر کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ فوری ریلیف دیتی ہیں۔یہ زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھتی ہیں،روپے کو گرنے سے بچاتی ہیں اور پالیسی سازوں کو قیمتی وقت دیتی ہیں۔ لیکن افسوس یہ وقت ایک بار پھر بغیر کسی پائیدار سرمایہ کاری کے گزرتا دکھائی دیتا ہے یعنی اس بحران کے چکر سے نکلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی۔یہ اربوں ڈالر نہ تو توانائی کے شعبے کی خرابیوں کو درست کر سکتے ہیں،نہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دے سکتے ہیں اور نہ ہی حقیقی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرسکتے ہیں۔بنگلہ دیشن اور فلپائن جیسے ممالک جو ترسیلات پر انحصار کرتے ہیں،اس خطرے کو بہت پہلے پہچان چکے ہیں اور متنوع برآمدات و مضبوط مقامی صنعتوں پر توجہ دے رہے ہیں۔ہم وہ استثنیٰ ہیں جو اپنے بیرون ملک پاکستانیوں کو ان کی وفاداری پر سراہتا ہے،پھر اسی جگہ کو ضائع کردیتا ہے جووہ خرید کر دیتے ہیں۔ خطرات واضح ہیں،بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کو بیرون ملک سے سرکاری ذرائع کے ذریعے ترسیلات زرلانے کی سہولت دینے پر دی جانے والی مراعات میں کمی کرنے کا فیصلہ ترسیلات زر میں اضافے کے بعد یہ ان لاکھوں محنت کشوں کی قربانیوں کی توہین ہے،جو ایک ہی مقصد کے تحت رقوم بھیجتے ہیں’’ اپنے پیاروں کو سہارا دینا۔‘‘
دوسری جانب بھارت نے میانمار کی خود مختاری کو بْری طرح پامال کرتے ہوئے اس پر 150 ڈرونز حملے کئے ہیںاور اس طرح وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا بھی مرتکب ہواہے۔ مودی کی توسیع پسندانہ سوچ میانمار تک جا پہنچی ہے جسکی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اچانک بمباری کی گئی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق 13 جولائی کی صبح بھارتی افواج کی جانب سے یو ایل ایف اے (آئی) کے مبینہ کیمپس پر 150 اسرائیلی ساختہ ڈرون حملے کئے گئے جہاں مشرقی کمانڈ ہیڈ کوارٹر قائم تھا۔ ان حملوں میں میانمار کے 3 اہم کمانڈروں سمیت متعدد افراد ہلاک ہوئے۔ بھارتی وزارت دفاع ان حملوں سے لاعلمی کا اظہار کر رہی ہے جو ایک بڑا تضاد ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت نے یہ کارروائی ایسے وقت پر کی ہے جب بھارت میں آپریشن سیندور کے نتائج پر تنقید کی جارہی ہے۔ بھارتی حکومت اپنی فوج کو سیاسی تشہیر کیلئے استعمال کر رہی ہے جو اسکے عسکری اداروں میں مایوسی کا باعث ہے۔ میانمار پر حملہ درحقیقت بھارت کی اندرونی عسکری ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا میں ایک علاقائی اجارہ دار کے طور پر ابھرنا چاہتا ہے۔ وہ پاکستان، نیپال، چین، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پہلے ہی تعلقات کشیدہ کر چکا ہے اور یہ امر واضح ہے کہ بھارتی جنگی جنون خطے کے امن اور ترقیاتی کوششوں میں رکاوٹ بنتا جارہا ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کے جارحانہ اقدامات کا فوری نوٹس لے۔