• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ برس نومبر میں ہمارے سسرالی خاندان میں شادی کی تقریب تھی۔ خیال تھا کہ ٹرین سے سفر کریں گے تاکہ دنیا کا سب سے حسین ریل ٹریک جو سنگلاخ پہاڑوں اور تاریک سرنگوں سے اپنا راستہ بناتا ہوا جاتا ہے اس سے لطف اندوز ہوا جا سکے۔میرا بیٹا ٹرین کے سفر کیلئے بہت پرجوش تھا۔ لیکن آئے دن ہونے والے حادثات اور سڑکوں پر پنجابی مسافروں کے قتل کی وارداتوں نےشدید عدم تحفظ سے دوچار کر دیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ٹرین یا پھر روڈ کا سفر ایک خواب ہی رہا۔بارہ تیرہ برس کا پاکستانی اپنے بڑوں سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب تھا کہ اپنے ہی ملک میں اس عدم تحفظ کا سبب کیا ہے ؟بلوچستان پاکستان کا ایک صوبہ ہے پھر ہم وہاں بائے روڈ یا ٹرین کے ذریعے جاتے ہوئے کیوں گھبراتے ہیں؟ صوبہ بلوچستان پاکستان کے وفاق کی ایک اکائی ہے،دوسرے صوبوں کے لوگ بلوچستان جاتے ہیں تو اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ موت کی تلوار راستوں پر لٹکتی رہتی ہے دہشت گردی کے یہ واقعات کچھ وقفوں کے بعد ہوتے رہتے ہیں ۔ ماہ جولائی بلوچستان جانے اور آنے والے مسافروں کیلئے بہت بھاری رہا ۔جولائی کے پہلے ہفتے میں ژوب کے مقام پر نو پنجابی مسافروں کو شناخت کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا نو جیتے جاگتے،خوابوں سے بھرے انسان تاریک راہوں میں مارے گئے۔ان نو افراد سے جڑے ہوئے خاندانوں پر قیامت بیت گئی خبر میں صرف نو مسافر اور نو لاشوں کا تذکرہ ہے مگر اس قیامت کا تذکرہ نہیں جومسافرت میں مارے جانے والوں کےخاندانوں پر بیت گئی۔دو بھائی اپنے والد کے جنازے کو کندھا دینے آرہے تھے کہ خود شقی القلب دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے ۔اس گھر پر قیامت بیت گئی جی ہاں باپ اور دو بیٹوں کے بھری جوانی کے بھاری جنازے اٹھے ۔دوسرا سانحہ کراچی سے کوئٹہ جانے والی ایک مسافر بس پر ہوا جس میں امجد صابری کے گھرانے کے قوال تقریب میں جا رہے تھےاندھا فائرنگ کر کے تین مسافروں کو مار دیا گیا بہت سے لوگ اس میں زخمی ہوئے۔اب مسافروں کی لاشیں جو گھروں کو گئیں وہاں نوحے اور سسکیاں بلند ہوئیں اور ساتھ ہی یہ سوال بھی کہ ان کا قصور کیا تھا کہ انہیں مسافرت میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا؟ وہ کسی دشمن کے علاقے میں سفر نہیں کر رہے تھے وہ اپنے ہی ملک میں سفر کر رہے تھے ۔اب ہم تجزیے کر کے کالم لکھ کے بھول جائیں گے لیکن جن گھروں پر یہ سانحےگزرے ہیں وہاں کی ہر صبح اور ہر شام بلوچستان کی سڑکوں پر بہنے والے اپنوں کے لہو کے سائے میں گزرے گی۔اخباروں کا پیٹ بھرتا ہے،ٹی وی چینلوں کے پروگرام میں لا یعنی بحثیں ہوتی ہیں کالم لکھے جاتے ہیں اور اہل اختیار کی طرف سے رٹے رٹائے مذمتی بیانات جاری کیے جاتے ہیں۔پھر سب کچھ خبروں کے ہنگام میں فراموش کر دیا جاتا ہے تا وقتیکہ ایک اور سانحہ ٹی وی چینلوں اور اخبار کی سرخیوں کا پیٹ بھرنے کو وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔ ان سانحات کو روکنے کیلئے متعلقہ اہل اختیارفوری طور پر موثر عملی اقدامات کریں۔اسلام آباد، لاہورموٹروے پر سالٹ رینج کے ایریا میںاوورا سپیڈنگ کو روکنے کیلئے،بسوں کا ایک قافلہ بنا کر گزارا جاتا ہے۔اسی طرز پر بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر مسافر بسوں کے قافلوں کو ہائی پروفائل سیکورٹی کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچانے کا انتظام کرنا چاہیے۔ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا پنجاب سے بلوچستان جانے اور آنے والی مسافر بسوں کو ہائی پروفائل سکیورٹی میںبھیجا جاتا تاکہ کسی بھی قسم کی ناگہانی حالت، دہشت گردی کے امکان کو کم سے کم کیا جاسکتا، بلوچستان کی مقامی جوانوں پر مشتمل فورس بنائی جائے۔یہ فورس پنجاب اور بلوچستان کے درمیان قومی شاہراہوں پر تعینات ہو۔ان میں وہی لوگ شامل کیے جائیں جو مقامی جغرافیہ اور مقامی زبان سے پوری طرح واقف ہوں۔ دہشت گرد کارروائیاں کر کے ان پُرپیچ سنگلاخ پہاڑوں میں پناہ لے لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سانحے کے بعد جب فورسز کے اہلکار جائے واردات پر پہنچتے ہیںتودہشت گرد ان پُرپیچ پہاڑوںمیں کہیں گم ہو چکے ہوتے ہیں اور کبھی سیکورٹی فورسز کے ہاتھ نہیں آتے۔مؤثر اور بروقت انٹیلی جنس پھر اس کی بنیاد پر عملی اقدامات کا چوکس اور چوکنا نیٹ ورک بنایا جائے۔ضروری ہےکہ تحت نظر ویران اور سنگلاخ شاہراہوں پر جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کی جائیں ۔ مقامی قبائل اور سرداروں کو اعتماد میں لے کر جرگہ سسٹم کے ذریعے سڑکوں کی حفاظت کا معاہدہ کیا جا سکتا ہے جو قبیلہ امن قائم رکھے اسےفنڈز اور مراعات دی جائیں ۔ حساس اداروں کو ایک ایسا نیٹ ورک بنانا چاہیے جس میں مقامی لوگوں کے ساتھ رابطے بڑھائیں اور انکے ساتھ ایک انٹیلی جنس نیٹ ورک بنایا جائے ۔بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کو اگر ہم ایک بڑی تصویر میں دیکھیں تو یہ سب پاکستان دشمن عناصرکے عزائم کا ایک تسلسل ہے جو کبھی فتنہ خوارج کی شکل میں پاکستان کو بے امن کرتا ہے۔ کہیں پشتون تحفظ موومنٹ کے نام پر ملک دشمن بیانیے کو پروان چڑھاتے ہیں ۔پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن جتنی اہم اور حساس ہے اتنے ہی اندرونی اور بیرونی خطرات پاکستان کو گھیرے ہوئے ہیں۔بلوچستان دہائیوں سے دہشت گردی کے نرغے میں ہے ۔اسکے پیچھے بلوچستان کی حساس جغرافیائی پوزیشن ہے۔ فتنہ الہندوستان بھارتی پراکسی کی شکل میں بلوچستان میں موجود ہے۔ہماری فورسز اس عفریت سے نبرد آزما ہیں۔ ہمارے جوان اور افواج کے آفیسر اس جنگ میں اپنی جانیں پیش کر رہے ہیں۔بلوچستان کا مسئلہ محض بیرونی دہشت گردی کا ہی نہیں بلکہ مقامی بلوچوں کے احساس محرومی ،بلوچستان کے وسائل کی تقسیم پر وفاق پر عدم اعتماد جیسے مسائل بھی سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں۔ اس گتھی کو سلجھانا کسی ایک فریق کے بس کی بات نہیں۔ضرورت اس امر کی ہےکہ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت ،ریاستی ادارے اور مقتدرہ تعصب کی ساری گرد جھاڑ کر، ایک ہمدرد دل کے ساتھ بلوچستان کے پیچیدہ اور گھمبیر مسئلے کو ہر زاویے سے سمجھیں ، ایک ایک کر کے مسائل کی گرہیں کھولیں اور زخموں پر مرہم رکھنے کے عمل کا حقیقی آغاز کریں۔

تازہ ترین