• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی حکومت کی طرف سے منظور کئے گئے نئے مالی سال 26-2025کے بجٹ میں جو نئے ٹیکس قوانین متعارف کروائے گئے ہیں ان سے متعلق کاروباری برادری کی بے چینی اور اضطراب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ایف بی آر کا محکمہ پہلے ہی بزنس کمیونٹی کو بلا جواز تنگ کرنے اور ہراساں کرنے کے حوالے سے بدنام ہے لیکن اب انہیں کاروباری اداروں کے مالکان و سینئر مینجمنٹ کو گرفتار کرنے کے اختیارات دے کر مزید کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے۔ اس حوالے سے مختلف کاروباری سیکٹرز کی نمائندہ تنظیمیں، تاجر اور چیمبرز آف کامرس و انڈسٹریز کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت کی طرف سے کوئی مثبت پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے اب ان امتیازی ٹیکس قوانین کے خلاف احتجاج کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ اس حوالے سے فیصل آباد کی صورتحال خاصی گھمبیر ہے جہاں آبادی کی بڑی تعداد کا روزگار ٹیکسٹائل کی صنعت اور تجارتی سرگرمیوں سے جڑا ہوا ہے۔ اس لئے یہاں پر ان ٹیکس قوانین کے خلاف غم و غصہ بھی زیادہ ہے کیونکہ تجارتی و کاروباری سرگرمیاں پہلے ہی سست روی کا شکار ہیں۔ ایسے میں حکومت کے حالیہ بجٹ اقدامات واضح طور پر صنعتکاروں، ایکسپورٹرز اور تاجروں کے معاشی قتل کے مترادف ہیں۔

ٹیکسٹائل کا شعبہ نہ صرف نجی شعبے میں روزگار کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے بلکہ برآمدات میں بھی اس کا شیئر سب سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے اس شعبے کی ترقی کے لئے اقدامات کرنے کی بجائے گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں فائنل ٹیکس رجیم کو ختم کرکے نارمل ٹیکس رجیم کا نفاذ کرکے برآمدی سیکٹر کو شدید مالی دباؤ کا شکار کر دیا۔ واضح رہے کہ فائنل ٹیکس رجیم کے تحت برآمد کنندگان کی آمدنی پر ایک فیصد ایڈوانس ٹیکس فائنل تصور کیا جاتا تھا لیکن اب اس پر مزید ایک فیصد ایڈوانس ٹیکس نافذ کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے افسوسناک بات یہ ہے کہ اگر یہی سپلائی مقامی مارکیٹ میں کی جائے تو صرف ایک فیصد ایڈوانس ٹیکس نافذ ہوتا ہے یعنی برآمدات جو ملک کے لیے زرمبادلہ کے حصول کا اہم ذریعہ ہیں، پرٹیکس قوانین سخت کئے جا رہے ہیں اور مقامی فروخت پر نرمی کی متضاد پالیسی حکومت کی فیصلہ سازی پر سوالیہ نشان ہے۔ اسی طرح ایکسپورٹ فسیلی ٹیشن اسکیم میں کی جانے والی ترامیم بھی کاروباری برادری کے لیے درد سر بن چکی ہیں۔ کاٹن یارن کی درآمد پر سیلز ٹیکس کا نفاذ اور مقامی خریداری پر زیرو ریٹنگ کا خاتمہ اُس اسکیم کی اصل روح کے خلاف ہے جو برآمدی سیکٹر کو سہولت فراہم کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس حوالے سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز پہلے ہی یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ اس سکیم کو اس کے اصل فریم ورک کے مطابق بحال کیا جائے تاکہ برآمدی صنعتوں کو خام مال ٹیکس فری مہیا ہو لیکن اس حوالے سے بھی حکومت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

ملک کے تمام بڑے چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور مختلف تاجر تنظیموں کی طرف سے فنانس بل 26-2025 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو دیئے گئے گرفتاری کے اختیارات پر جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ غیر معمولی ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ بزنس کمیونٹی اپنے ذمے واجب الا دا ٹیکس کی ادائیگی سے بھاگ نہیں رہی لیکن ٹیکس دہندگان کو مجرم سمجھ کر ہتھکڑی لگانے کی اجازت ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ فنانس بل کی شق 37 اے اور 37 بی کے تحت ایف بی آر اہلکاروں کو گرفتاری، چھاپے اور قید تک کے اختیارات دینا ملک میں کاروبار کرنے کو مزید مشکل بنانے کے ساتھ ساتھ ایف بی آر کو ایک پولیس فورس میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے جس سے ٹیکس وصولیوں میں اضافے کی بجائے مزید کمی اور رشوت کے ریٹ بڑھنے کا امکان زیادہ ہے۔

اس مسئلے کے علاوہ کاروباری طبقے کا یہ شکوہ بھی بجا ہے کہ حکومت نے گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں کی گئی غلطیوں کی اصلاح کی بجائے انہیں مزید بگاڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایکسپورٹرز کے سینکڑوں ارب روپے ریفنڈز میں پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں سرمائے کی شدید قلت درپیش ہے۔ اسی طرح توانائی کی قیمتوں میں ایکسپورٹ انڈسٹری کو کوئی ریلیف نہ دینا اور پیداواری لاگت کو کم کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی نہ اپنانا بجٹ کی ایک اور سنگین خامی ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر جیسا توانائی پر منحصر شعبہ اگر مہنگی بجلی خریدے گا تو عالمی مارکیٹ میں مسابقت کیسے کرے گا؟ کیا حکومت عالمی ایکسپورٹ مارکیٹ میں پاکستان کے لیے مشکل حالات مزید سنگین بنانا چاہتی ہے؟ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس طرح کے اقدامات ایک ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں جب پاکستان کی معیشت پہلے ہی شدید دباؤ میں ہے، روپے کی قدر مسلسل گر رہی ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور نوجوان روزگار کے لیے دربدر ہیں۔ ایسے میں بزنس کمیونٹی کو اعتماد میں لے کر ان کے مسائل سننا اور پالیسیاں ان کی مشاورت سے بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے حکومت نے مشاورتی عمل کو ایک رسمی کارروائی بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں کاروباری طبقے کی مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت اپنی صفوں میں موجود دوست نما دشمنوں کو شناخت کرکے ان سے اپنی راہیں جدا کرکے معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے والے اقدامات کرنے پر توجہ دے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ ہو سکتا ہے کہ متنازعہ ٹیکس قوانین فوری واپس لے۔ علاوہ ازیں اگر حکومت ملک کی معاشی بنیادوں کو مضبوط بنانے میں سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے ایکسپورٹرز، ٹریڈ باڈیز اور صنعتی شعبے کے ساتھ بیٹھ کر کھلے دل سے مشاورت کرے، غیر منصفانہ ٹیکس قوانین پر نظرثانی کرے اور برآمدات کے فروغ کے لیے واضح روڈ میپ تشکیل دے۔ اس حوالے سے مزید تاخیر ہوئی تو احتجاج اور ہڑتالوں کا تسلسل معیشت کو مزید کمزور اور حکومت کو مزید غیر مقبول بنانے کا باعث بن سکتا ہے۔

تازہ ترین