اللّٰہ تعالیٰ نے پاکستان کو قیمتی معدنی ذخائر سے نوازا ہے جن میں بلوچستان کے علاقے چاغی میں ریکوڈک کے مقام پر سونے اور تانبے کے سب سے بڑے ذخائر اور سندھ کے علاقے تھر میں ایران اور سعودی عرب کے تیل کے مجموعی ذخائر سے زیادہ کوئلے کے ذخائر شامل ہیں۔ ریکوڈک پاکستان کی معاشی ترقی کےلئے ایک اہم منصوبہ ہے جس پر میں کئی کالمز لکھ چکا ہوں لیکن حال ہی میں ریکوڈک منصوبے کی آپریٹر کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کی فزیبلٹی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ریکوڈک میں اچھی کوالٹی کے سونے اور تانبے کے 60ارب ڈالر سے زائد ذخائر موجود ہیں جس میں 54 ارب ڈالرکا سونا اور 6ارب ڈالرکا تانبہ شامل ہے۔ ریکوڈک میں 13 ملین ٹن تانبہ اور 17.9ملین اونس سونا پایا جاتا ہے جو آئندہ 37 سال تک نکالا جاسکتا ہے۔ پہلا مرحلہ 2028میں شروع ہوگا جس میں 45ملین ٹن معدنیات کو پروسیس کیا جائےگا جبکہ دوسرا مرحلہ 2034 میں شروع ہوگا جس میں 90 ملین ٹن سالانہ معدنیات کو پروسیس کیا جائے گا۔ فزیبلٹی رپورٹ کے مطابق ریکوڈک منصوبے میں ابتدائی 5.6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس سے 13.1 ملین میٹرک ٹن تانبہ اور 17.9ملین اونس سونا حاصل کیا جائے گا۔ عالمی مارکیٹ میں اس وقت ایک ٹن تانبے کی قیمت 9815 ڈالر جبکہ ایک اونس سونے کی قیمت 3040 ڈالر ہے۔ ریکوڈک منصوبے سے حاصل کئے جانے والے سونے، تانبے اور دیگر معدنیات کی مجموعی قیمت 183ارب ڈالر بنتی ہے۔ ریکوڈک منصوبے میں حکومت پاکستان کے مجموعی 50فیصد حصص ہیں جن میں 3 سرکاری اداروں آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی (OGDC) ، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (PPL) اور گورنمنٹ ہولڈنگز (GHPL) کے 8.33 فیصد کے حساب سے 25 فیصد اور بلوچستان حکومت کے 25 فیصد حصص شامل ہیں جبکہ باقی 50 فیصد حصص منصوبے کے آپریٹر بیرک گولڈ کارپوریشن کے پاس ہیں جن کی مالیت 7 ارب ڈالر بنتی ہے۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ریکوڈک منصوبے میں دو بڑی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ریکوڈک کی کان پاکستان کے کسی پورٹ کے ساتھ ڈائریکٹ لنک نہیں۔ ریکوڈک منصوبہ چاغی میں ایران کی سرحد سے 100کلومیٹر اور افغانستان کی سرحد سے70کلومیٹر دور ہے اور اس علاقے میں کوئی روڈ یا ریلوے لائن نہیں جو پاکستان کی کسی بندرگاہ سے منسلک ہو تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت 80کلومیٹر طویل ریلوے لائن بچھانے کا ارادہ رکھتی ہے جو ریکوڈک کو نوکنڈی اور کوئٹہ ریلوے اسٹیشنوں سے جوڑے گی۔ اس کے علاوہ سینڈک منصوبے کی طرح روڈ نیٹ ورک بھی حکومت کے منصوبے میں شامل ہے۔ ریکوڈک مائننگ کمپنی بیرک گولڈ گوادر پورٹ کو استعمال نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اس پورٹ پر کوئی بلک کنٹینر ٹرمینل نہیں ۔ دوسرا مسئلہ پانی کا ہے۔ سونے اور تانبے کی پیداوار کیلئے وافر مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے جو ریکوڈک میں دستیاب نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس منصوبے سے ہمیں 3 سے 4 ارب ڈالر سالانہ سونا اور تانبہ نکال کر ایکسپورٹ کرنا تھا جو اب تک تاخیر کا شکار ہے۔ ریکوڈک منصوبے کی لائف 45 سال ہے جس کے فیز ون سے پہلے 10 سال میں 2 لاکھ ٹن تانبہ اور 2.5 لاکھ اونس سونا نکلنا تھا جسکے کیپٹل اخراجات 5.5 ارب ڈالر ہوں گے جبکہ فیز 2 سے بقایا 35 سال میں 4 لاکھ ٹن تانبہ اور 5 لاکھ اونس سونا نکلنا تھا جسکے کیپٹل اخراجات 3.5ارب ڈالر ہوں گے۔ سونے اور تانبے کے خام مال کو مٹی اور ریت میں ملاکر بلاک بنائے جائیں گے جنہیں ریفائنری میں پروسیس کرکے خالص تانبہ اور سونا حاصل کیا جائے گا۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ سونے اور تانبے کے بلاکس کو جنوبی افریقہ اور برازیل بھیجنے کے بجائےپاکستان میں ہی ریفائن کرے تاکہ مقامی بلوچ بھائیوں کو روزگار مل سکے۔
ریکوڈک منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ میں سرمایہ کاری پر منافع (IRR) 25 فیصد بتایا گیا ہے جو نہایت پرکشش ہے جس کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب کے وزیر سرمایہ کاری شیخ خالد بن عبدالعزیز الفلاح نے حکومت پاکستان کے حصص میں سے 10 سے 20 فیصد شیئرز جن کی مالیت 500 ملین ڈالرز سے ایک ارب ڈالرز بنتی ہے، خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے جس پر کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ بھی آمادہ ہے۔ حکومت پاکستان کو اس منصوبے کیلئے مطلوبہ انفراسٹرکچر بنانے کیلئے مالی وسائل کی کمی کا سامنا ہے جس کیلئے سعودی عرب کو سرمایہ کاری کی دعوت دی گئی ہے۔ ریکوڈک منصوبہ 23جولائی 1993 میں شروع ہوا تھا لیکن افسوس کہ 32 سال گزرنے کے باوجود اس منصوبے سے کان کنی شروع نہ کی جاسکی۔ SIFC جو اس منصوبے میں سرگرم ہے، سے درخواست ہے کہ اس منصوبے کو جلد از جلد مکمل کرکے فیز ون کی پروڈکشن 2028سے شروع کی جائے تاکہ ملک کو سالانہ 3سے 4ارب ڈالر سونے اور تانبے کی ایکسپورٹ سے حاصل ہوسکیں جو ہمارے بیرونی ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتے ہیں۔