• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگ جنگل کی میراث ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کو حماس نامی ایک غیر ریاستی جتھے کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے اسرائیل اپنے جدید ہتھیاروں اور جدید تر وحشت کے ساتھ غزہ میں مقیم فلسطینیوں پر حملہ آور ہے۔ کوئی 40 کلومیٹر لمبی اور 6 سے 12 کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی کا رقبہ 365مربع کلومیٹر ہے جہاں 22 لاکھ فلسطینی تین اطراف سے اسرائیل اور چوتھی طرف سمندر میں گھرے ہیں۔ ایک مختصر سا راستہ مصر کی طرف کھلتا ہے جسے امریکی حمایت یافتہ فوجی آمریت نے بند کر رکھا ہے۔ دنیا بھر سے پہنچنے والی خوراک اور ادویات چند کلومیٹر دور سمندر میں موجود ہیں لیکن اسرائیل نے غزہ تک رسائی روک رکھی ہے۔ اب تک مرنے والے نہتے فلسطینی بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کی تعداد 62 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ خوراک کی کمی کے باعث قحط کی صورتحال ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھوک سے مرنے والوں کی تعداد سو سے زیادہ ہو چکی۔ غزہ میں اب کوئی عمارت سلامت ہے نہ ہسپتال، مرنے والوں میں ڈاکٹروں اور امدادی کارکنوں سمیت وہ معصوم بچے بھی شامل ہیں جو پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے قطاروں میں کھڑے تھے۔ غزہ کی یہ پٹی ملبے کا ایک وسیع منظر ہے جہاں تاریخ، اندھی طاقت اور خوابیدہ عالمی ضمیر کے حصار میں گھرے انسانوں کی آنکھوں میں بے بسی کی وحشت اتر آئی ہے۔ 1857ء میں دہلی کی کل آبادی ایک لاکھ تھی۔ غالب نے اپنے خطوط میں دہلی کی بربادی کا نقشہ کھینچا ہے۔ ایک جملہ دیکھیے۔ ’بندہ خدا، اردو بازار نہ رہا، اردو کہاں، دلی کہاں؟ واللہ اب شہر نہیں، کیمپ ہے، چھائونی ہے۔ نہ قلعہ، نہ شہر، نہ بازار، نہ نہر۔‘ قلعہ سے نکل کر ہمایوں کے مقبرے میں پناہ لینے والے شاہ نامدار بہادر شاہ ظفر کا رنگ حزن دیکھئے۔ ’جن گلین میں پہلے دیکھیں لوگن کی رنگ رلیاں تھیں / پھر دیکھا تو ان لوگن بن سونی پڑی وہ گلیاں تھیں‘۔ دہلی کی اس قیامت پر اب دو صدیاں گزرنے کو آئیں۔ آج کے غزہ میں جو ہو رہا ہے اس پر 57 مسلم اکثریتی ممالک نے اب تک کیا کیا ہے؟ پونے دو ارب مسلمانوں کا ردعمل کیا ہے؟ 2017ء میں 40 مسلم ممالک کی ایک فوج کھڑی کی گئی تھی جسکی قیادت ایک طاقتور مسلم اکثریتی ملک کے سابق فوجی سربراہ کو سونپی گئی تھی۔ وہ فوج کہاں ہے؟ وہ عبقری سپہ سالار کہاں ہے؟ آج اہل یہود کی کل آبادی سوا کروڑ سے زائد نہیں لیکن اس مختصر گروہ نے 80 برس قبل یورپ میں فسطائی بربریت کو اجتماعی انسانی حافظے سے مٹنے نہیں دیا۔ اقتدار کا اختیار محض اپنے عوام کو خاموش رکھنے کی طاقت سے متعین نہیں ہوتا اور نہ مہنگے داموں خریدے ہتھیار قوموں کی داخلی توانائی کی ضمانت دیتے ہیں۔ قوم کوئی بھی ہو، حالات و واقعات پر اثر انداز ہونے کی طاقت عوام کے سیاسی شعور، تمدنی بیداری اور سیاسی بندوبست کی شفافیت سے طے پاتی ہے۔

ایک حقیقی یا مفروضہ دشمن تخلیق کرنا آمریت کی ناگزیر ضرورت ہوتی ہے۔ یورپ میں دو ہزار برس سے یہود دشمنی کی روایت چلی آ رہی تھی۔ ہٹلر نے اسے نسل پرستی سے آمیخت کر کے نفرت کا فلسفہ تخلیق کیا۔ 1933ء سے 1939ء تک ریاستی طاقت اور اکثریتی جبر کے گٹھ جوڑ سے جو ذہن سازی کی گئی وہ بالآخر ہولوکاسٹ پر منتج ہوئی۔ صرف ایک عقوبت خانے یعنی پولینڈ کے مقبوضہ علاقے میں واقع آسوٹز (Auschwitz) کا احوال سن لیں۔ یہ کیمپ 1940ء میں بدترین عقوبت خانے کی شہرت پا چکا تھا۔ ستمبر 1942ء سے جنوری 1945ء تک میلوں پر پھیلے ہوئے اس عقوبت خانے میں تیرہ لاکھ قیدی لائے گئے جن میں سے گیارہ لاکھ قتل کیے گئے۔ ساڑھے نو لاکھ یہودی قیدیوں کے علاوہ پولستانی، روسی جنگی قیدی اور دیگر سیاسی مخالف اس عقوبت خانے میں بھوک، بیماری، تشدد، تھکاوٹ نیز گیس چیمبرز کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ 27 جنوری 1945ء کو سوویت افواج اس عقوبت خانے تک پہنچیں تو زندہ بچ رہنے والے مرنے والوں سے بدتر حالت میں تھے۔ جرمن فلسفی تھیوڈور آڈورنو نے نازی عقوبت خانوں کے حقائق سامنے آنے پر لکھا تھا کہ ’آسوٹز کے تجربے سے گزرنے کے بعد نوع انسانی کے لیے شاعری لکھنا بربریت کے مترادف ہو گا‘۔ آڈورنو دراصل یہ کہنا چاہتا تھا کہ شعر اور دیگر فنون عالیہ جو زندگی، محبت، خوبصورتی اور امن کے نشان ہیں وہ نازی وحشت کے بعد بے معنی ہو چکے۔ اس کا جواب 1949ء میں پیدا ہونے والے سلواکیہ کے فلسفی سلاووئی ژیژک نے نصف صدی بعد دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ شعر اور دیگر فنون لطیفہ تو اپنی اصل میں ناقابل بیان کو بیان کرنے کی کوشش کا نام ہے۔ نثر آسوٹز، بوخن والڈ اور دوسرے عقوبت خانوں میں ہونے والے ظلم کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ یہ منصب تو شعر ہی کو ادا کرنا ہے۔ آڈورنو اور ژیژک بنیادی طور پر ایک ہی بات کہہ رہے تھے۔ بچوں کی ہنسی، پرندوں کی چہچہاہٹ، پتوں سے گزرتی ہوا اور محبت کرنے والوں کی جذباتی تھرتھراہٹ بیان کرنا فن کا وظیفہ اور منصب ہے۔ جنگ، تشدد، بھوک اور محرومی وہ بدصورتیاں ہیں جن کی نشان دہی کرنا وجود کا جواز ہیں۔ دنیا کو دوسری عالمی جنگ کے خوفناک تجربے سے گزرے 80 برس گزر چکے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی میں شاخوں پر کونپلیں پھوٹ آئی ہیں۔ عالمی جنگ کے بعد کوریا، ویت نام، مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں سرد جنگ کی آڑ میں بہائے گئے خون کا حساب کون دے گا۔ دنیا کی سو سے زیادہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ضمیر عالم سے درخواست کی ہے کہ غزہ میں بندوقوں کے نرغے میں گھرے بھوکے، بیمار اور زخمی انسانوں کو بچانے کے لیے بامعنی اقدامات کیے جائیں۔ اقوام متحدہ کا ادارہ ایک عالمی طاقت کے ویٹو کی سنگین چٹان تلے دبا ہے۔ کیا انسانوں نے بیسویں صدی میں نوآبادیاتی غلامی سے اس لیے آزادی حاصل کی تھی کہ یہ ممالک ترقی یافتہ دنیا کے نت نئے ہتھیاروں کی تجربہ گاہ بنائے جائیں۔ آج کا انسان سوال کرتا ہے کہ جب غزہ میں بھوک سے مرتے بچوں اور بوڑھوں کی سسکیوں پر موت کا سناٹا غالب آ جائے گا تو لکھنے والا شعر کہے گا یا نثر لکھے گا؟

تازہ ترین