• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: علینا

ملبوسات: شاہ پوش

آرائش: Bege Salon

کوآرڈی نیشن: عابد بیگ

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

معروف برازیلین لکھاری، مترجّم، شاعر ماریو قوینٹانہ کا قول ہے۔ ’’تتلیوں کے تعاقب میں اپنا وقت ضایع نہ کریں۔ اپنے باغیچےکی دیکھ بھال، صفائی سُتھرائی پر توجّہ دیں، تتلیاں آپ کے پاس خود آجائیں گی۔‘‘ اِسی طرح ایک اور قول ہے۔ ’’تتلی کی مانند بننے کی کوشش کریں، بہت خُوب صُورت، رنگارنگ، مگر آسانی سے کسی کی بھی دسترس میں نہ آنے والی۔‘‘ 

تتلیوں ہی سے متعلق رابندرناتھ ٹیگور کا کہنا ہے کہ ’’تتلیاں مہینے نہیں، لمحے شمار کرتی ہیں اور اُن کے لیے وقت کبھی کم نہیں پڑتا۔‘‘ "Brain Dropping" نامی کتاب کے مصنّف جارج کیرلن ایک جگہ لکھتے ہیں۔ ’’سارا کام Caterpillar (لاروا) کرتا ہے اور ساری شہرت و نیک نامی تتلی کے حصّے آجاتی ہے (ویسے یہ بھی ایک ہُنر ہے)۔‘‘ ایک اور معروف قول ہے کہ ’’ہم سب زندگی کے باغ میں اُڑتی پھرتی، ننّھی مُنی، نرم و نازک تتلیاں ہی تو ہیں۔‘‘ 

جب کہ اِسی ضمن میں ایک بھارتی شاعرہ روپی کور کا کہنا ہے کہ ’’ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک دن آپ سوکر اُٹھیں اور بس تتلی بن جائیں۔ افزائش و بالیدگی، نشوونما ایک باقاعدہ مرحلہ وارعمل ہے۔‘‘ خُوب صُورت آرٹسٹ،روبن نولن کاماننا ہےکہ ’’تتلیاں، فطرت کے فرشتے ہیں، جو درحقیقت ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ زندگی کتنی قیمتی، خُوب صُورت اور بڑی نعمت ہے۔‘‘ پھر ایک کینیڈین فلاسفر میٹشونا ڈہلیویو نے بھی کیا پیاری بات کہی کہ ’’تتلی، حقیقتاً توایک لاروا ہی ہے، لیکن اُس نے اپنےاُڑنےکےخواب پرکبھی سمجھوتا نہیں کیا۔‘‘ 

ایسے ہی ایک معروف انفلوئنسر، سبرینا نیوبے کا کہنا ہےکہ ’’تبدیلی کے عمل سے گزرنا اور اُس کا بہت خوش دلی سے خیرمقدم کرنا ہمیں تتلی سے سیکھنا چاہیے۔‘‘ جب کہ معروف امریکی ماہرِ فطرت، شاعر، فلسفی ہنری ڈیوڈ تھورو نے توایک انتہائی دانش ورانہ، حقیقت پسندانہ بات لکھ کرگویا قلم ہی توڑدیا کہ’’خوشیاں بھی تتلیوں ہی کی مانند ہوتی ہیں، جتنا آپ اُن کا تعاقب کریں گے، وہ آپ سے دُور بھاگیں گی۔ لیکن اگر آپ خاموشی، صبر و سُکون سے بیٹھ کر اُن کا انتظارکریں، تو وہ جلد خود بخود آپ کے سر پر آکے منڈلانے لگیں گی، کاندھے پہ آبیٹھیں گی۔‘‘

محض ایک ننّھےمُنّے کیڑے کی نسبت سے کیا کیا فلسفۂ حیات، اسرار و رموزِ زندگی بیان نہیں کردیئے گئے۔ ذرا سا غور کیا جائے تو اِک اِک قول، گویا زندگی بھر کے تجربات کا نچوڑ ہے اور ہمیں یہ بادِ بہاری، تتلیاں، قوسِ قزح، رنگا رنگ طیور، کُوکتی کوئلیں، بھیگی بھیگی صُبحیں، سُرمگیں شامیں، باغوں میں پڑے جھولے، ساون کے گیت، میگھ ملھار، برکھا رس میں ڈوبی شاعری، رِم جِھم بوندوں کے سنگ رقصاں تن و مَن، دھوپ چھائوں، وصل و جدائی، قدیمی محاورے، کہاوتیں، ضرب الامثال، بھانت بھانت کے موسمی پکوان، ست رنگی چُنریاں اور ساون بھادوں سے میل کھاتے رنگ رنگیلے پہناوے کیوں اِس قدر یاد آئے جارہے ہیں، ظاہر ہے، موسمِ برسات کے عین جوبن کی مناسبت سے۔ 

پچھلا رائٹ اَپ بھی اِسی تناظر میں لکھا گیا، آج بھی اُڑتی پِھرتی تتلیاں، ست رنگی قوسِ قزح ہی ذہن و دل کے دروازوں، دریچوں سے جھانک رہے ہیں۔ ویسے لڑکیوں بالیوں کا تصوّر کریں، تو پھر کسی خاص رُت، موسم کا ہونا بھی لازم نہیں، چہار سُو آپ ہی آپ رنگ، روشنیاں، قہقہے، زمزمے، شوخیاں، شرارتیں، اٹکھیلیاں، حرارتیں گھیرا سا ڈال لیتی ہیں۔ جیسے پروین شاکر کو ایک نرم لہجے نے کن کن موسموں سے آشنائی، کیسی کیسی رُتوں تک رسائی نہیں دے دی تھی۔ 

وہ کیا ہے کہ ؎ ’’وہی نرم لہجہ…جواِتنا ملائم ہے جیسے… دھنک گیت بن کے سماعت کو چُھونے لگی ہو…شفق نرم کومل سُروں میں کوئی پیار کی بات کہنے چلی ہو…کس قدر رنگ و آہنگ کا، کس قدر خُوب صُورت سفر…وہی نرم لہجہ…کبھی اپنے مخصوص انداز میں مجھ سے باتیں کرے گا… توایسا لگے…جیسے ریشم کے جھولے پہ کوئی مدھرگیت ہلکورے لینے لگا ہو…وہی نرم لہجہ… کسی شوخ لمحےمیں اُس کی ہنسی بن کے بکھرے…تو ایسا لگے…جیسے قوسِ قزح نے کہیں پاس ہی اپنی پازیب چھنکائی ہے…ہنسی کو وہ رم جھم…کہ جیسے فضا میں بنفشی چمک دار بوندوں کے گھنگھرو چھنکنے لگے ہوں… وہی نرم لہجہ، مجھے چھیڑنے پر جب آئے… تو ایسا لگے گا…

جیسے ساون کی چنچل ہوا… سبز پتّوں کی جھانجھن پہن کر…سُرخ پھولوں کی پائل بجاتی ہوئی…میرے رخسار کو…گاہےگاہے شرارت سے چُھونے لگے…مَیں جو دیکھوں پلٹ کے تو وہ…بھاگ جائے مگر…دُور پیڑوں میں چُھپ کر ہنسے…اور پھر ننّھے بچّوں کی مانند خوش ہوکے تالی بجانے لگے…وہی نرم لہجہ… کہ جس نے مِرے زخمِ جاں پہ ہمیشہ شگفتہ گلابوں کی شبنم رکھی ہے…بہاروں کے پہلے پرندےکی مانند ہے…جو سدا آنےوالےنئے سُکھ کے موسم کا قاصد بنا ہے…اُسی نرم لہجے نے پھر مجھ کو آواز دی ہے۔‘‘

اندر و باہر کے موسموں پر خُوب نکھار آیا ہو، تو بناؤ سنگھار پر بہار آنا تو لازم ہی ٹھہرا۔ تو دیکھیے، ساون کی چنچل ہوا سی، ہماری آج کی بزم، جو اُودے، نیلے، پیلے ایک سے بڑھ کر ایک رنگ وانداز سےکچھ ایسی مزیّن، سنوری، نکھری ہوئی ہے، جیسے خُوب مینہ برسنے، ساون کی جھڑی سے سرتا پا دُھل دُھلا کے دھرتی آنگن، شجر وحجر، پھول پودوں کا رُوپ رنگ نکل آتا، بے تحاشا کِھل کِھل اُٹھتا ہے۔ وہ کیا ہے کہ ؎ پہلی بارش میں نہایا سا شجر لگتا ہے۔ تو بس، آج ہماری بزم بھی سمجھیں، موسلا دھار بارش میں نہائے درختوں، ڈال ڈال منڈلاتی رنگ برنگیوں تتلیوں ہی کے مثل ہے۔