• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ امر واقع ہے کہ رونما ہونیوالی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گزشتہ چند برسوں سے مون سون سے پہلے ہی غیر معمولی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے چنانچہ مناسب حفاظتی انتظامات اور احتیاطی اقدامات نہ ہونےسے جانی اور مالی نقصانات کا حجم بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ غیرمعمولی طوفانی بارشوں اور گلیشئرز پگھلنے سے سیلابی ریلے بڑے سیلاب کی شکل اختیار کرکے دیہات ہی نہیں، شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور گھروں کے گھر برباد اور کھیتوں میں کاشت شدہ فصلیں تباہ کردیتے ہیں۔ سیلاب میں گھرے ہونے کے باعث لوگ اپنے کاروبار اور روزگار تک سے محروم ہو جاتے ہیں جبکہ سیلاب کے بعد بحالی کیلئے حکومت کی جانب سے معقول امداد نہ ملنے سے متاثرین کے دکھوں میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارے لئے المناک صورتحال یہ بھی ہے کہ ہمارا مکار دشمن بھارت ہمیں کسی نہ کسی حوالے سے نقصان پہچانے کیلئے ہمہ وقت تاک میں بیٹھا رہتا ہے۔ بالخصوص بھارت کی موجودہ مودی سرکار تو پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ہذیانی خواہش رکھتی ہے جس کیلئے بھارت کبھی پاکستان کی جانب آنے والا پانی روک کر اسے ریگستان بنانے کی سازش کرتا ہے اور مون سون کے دوران سارا پانی پاکستان کی جانب چھوڑ کر اسے سیلاب میں ڈبونے کی سازشوں کے تانے بانے بُنتا ہے۔ پہلگام ڈرامے کے بعد پاکستان پر باقاعدہ جنگ مسلط کرنے سے پہلے مودی سرکار نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر کے پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کی ہی علانیہ سازش کی جبکہ نریندر مودی پاکستان کو بوند بوند پانی کیلئے ترسانے کی بڑ ھک مارتے بھی نظر آئے چنانچہ مودی سرکار کیلئے پاکستان کے خلاف اپنی گیدڑ بھبکیوں کو عملی جامہ پہنانے کا بھی یہی موقع ہے کیونکہ غیرمعمولی بارشوں سے پہلے ہی پاکستان کے بیشتر علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اگر بھارت نے اپنی بدخصلتی اور خبثِ باطن کے باعث پاکستان کی جانب اپنا سارا فالتو پانی چھوڑ دیا تو بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ارضِ وطن اور اسکے باسیوں کو بھارت کے لائے سیلاب سے کتنی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔ ہمار یہ المیہ ہے کہ ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زلزلوں اور سیلاب کی شکل میں ہونیوالے قیمتی انسانی جانی اور مالی نقصانات کو دیکھ کر بھی آئندہ کیلئے بچائو کی پیش بندی نہیں کرتے اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے بیٹھے رہتے ہیں۔ نہ برساتی نالوں کی بر وقت صفائی ، نہ ہی گلیوں بازاروں کے گٹروں کی صفائی اور نہ ہی کھلے میدانوں میں جمع ہونے والے پانی کے نکاس کا کوئی مناسب بندوبست کیا جاتا ہے اور جب مصیبت ہمارے دروازے پر دستک دیتی ہے تو ہم اپنے بچائو کیلئے ہاتھ پائوں مارنا شروع کرتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جب موجودہ اتحادی حکومت نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی، اس وقت ملک کی اقتصادی حالت انتہائی دگر گوں تھی اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے آگے بھی حکومت عوام کی فلاح کے اقدامات اٹھانے کے معاملہ میں بے بس نظر آتی تھی جبکہ اپوزیشن کے پیدا کردہ سیاسی خلفشار سے ملکی معیشت کو نکال کر استحکام کے راستے پر ڈالنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ اس صورتحال میں ملک کی سیاسی حکومتی ادارہ جاتی اور عسکری قیادت نے یکسو ہو کر ملک کی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنیکا بیڑہ اٹھایا جس میں وہ سرخرو ہوئیں اور آج وزیراعظم ملکی معیشت کواستحکام کے راستے پر گامزن ہونے کی قوم کو نوید سنانے کی پوزیشن پر آئے ہیں تاہم حکومت کو عوام کا مکمل اعتماد اس وقت ہی حاصل ہو پائیگا جب وہ اپنے روزمرہ کے مسائل بالخصوص مہنگائی کے مسائل میں عملی طور پر ریلیف ملتا ہوا محسوس کرینگے۔ اگر عوام بجلی گیس کے ناروا اضافی بلوں کی اذیت سے ہی خود کو باہر نہیں نکال پائینگے تو ان سے حکومتی گورننس کیلئے رطب اللسان ہونے کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ دوسری جانب پاکستان، افغانستان اور ازبکستان ریلوے لائن کی مشترکہ فزیبلٹی اسٹڈی کے معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں۔ کابل میں پاکستان کی جانب سے وزیر ریلوے حنیف عباسی نے معاہدے پر دستخط کیے جبکہ افغانستان اور ازبکستان کی طرف سے انکے وزرائے خارجہ نے معاہدے پر دستخط کئے۔ اس حوالے سے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سوشل میڈیا پر پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کی حکومتوں اور عوام کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ منصوبہ پورے خطے میں گیم چینجر ثابت ہوگا۔ معاہدے کیلئے منعقدہ تقریب کے موقع پر اسحاق ڈار نے افغان عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند سے ملاقات کی۔ دونوں رہنمائوں نے باہمی دلچسپی کے امور، امن و سلامتی و تجارت و راہداری تعاون اور علاقائی رابطوں پر گفتگو کی۔ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کیلئے اعلیٰ سطح روابط برقرار رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ اسحاق ڈار اور افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے درمیان بھی ایک ملاقات ہوئی جس میں پاک افغان تعلقات، علاقائی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کے آپس میں پہلے بھی اچھے تعلقات ہیں اور تینوں برادر مسلم ملک ہونیکی وجہ سے بھی ایک دوسرے کے فطری اتحادی ہیں۔ ریلوے کے ذریعے تینوں ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ ملے گا ۔ تینوں ملکوں کو اس معاہدے سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے، بالخصوص افغانستان کو خطے کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں سے گریز کر کے اپنے اور خطے کے مفاد میں آگے آنا چاہیے۔ پاکستان نے ہمیشہ اس کی ترقی و خوشحالی کو اہمیت دی۔ اس معاہدے کے تحت بھی وہ افغانستان کے مفادات کی نگرانی کریگا۔

تازہ ترین