• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک عجب قصہ ہوا ہے میرے ساتھ ،میرے پسند کے کھانوں میں ذائقہ نہیں رہا میں میٹھا کھاؤں تو نمکین لگتا ہے ۔نمکین چکھوں تو کڑوا محسوس ہوتا ہے مجھے لنچ ڈنر بریک فاسٹ کے اوقات بھول چکے ہیں،کھانے کی میز پر سجی نعمتوں کو دیکھوں تواحساس کے سمندر میں درد کی لہریں اٹھتی ہیں ۔اپنے بچے کے پسند کے کھانے بنانے والی ماں کہیںکھو گئی ہے وہ ماں سے پسند کے کھانے کی فرمائش کرے تو ندامت گھیر لیتی ہے ۔اپنے بچے کی پسند کے کیک بیک کرنے والی ماں نہ جانے کہاں کھو گئی ہےوہ نظر آتی ہے لیکن اس کی روح ہزاروں میل دور انبیاء کی سرزمین پر غزہ کے ان بھوکے بچوں کے ساتھ قطار میں موجود ہے جو کئی دن سے بھوکے، کھانےکے منتظر ہیں۔ بھوک سے نڈھال اپنے وجود کو پیالے اور پلیٹ بنائےچاول سوپ اور روٹی کے ایک ٹکڑے کے منتظر ایک طویل قطار میںکھڑے ہیں۔ جس کے ایک سرے پر گرم گرم چاول اور شوربہ تقسیم ہو رہاہے ، کھانے کے سامان سے بھرے سینکڑوں ٹرک باہر روک لیے گئے ہیں، امدادی ٹرکوں میں رکھا ہوا کھانا گل سڑ جائے گا،مگر ان ٹرکوں کا پہرا نہیں ٹوٹے گا، دودھ کے ڈبے خراب ہو جائینگے لیکن غزہ کے شیر خوار دودھ کے گھونٹ کو ترستے ہوئے موت کی آرادم دہ آغوش میں سو جائینگے۔وہ ماں غزہ کے بھوکے بچوں کیساتھ قطار میں کھڑی ہوئی ہے ،ان پر بارود برسایا جاتاہے، ناقابل بیان درد اور ظلم کی یہ کہانی روز دہرائی جاتی ہے۔ میرے پاس کچھ نہیں بس یہ چند الفاظ ہیں جو میں نے آنسوؤں کی صورت پیش کر دیے۔

دنیا کے ہر ادب میں بارش ایک بلیغ علامت کے طور پر استعمال ہوتی ہے ۔ اردو میں بارش رومانویت خوبصورتی اور حسین موسم کا ایک استعارہ ہےقدرت کے حسین مناظر کو اپنی تحریروں میں سمونے والے اے حمید بارش کے دیوانے تھے ۔ان کی اہلیہ نے ان کی یاد میں ایک مضمون میں بطور خاص لکھا کہ جب بارش ہوتی تھی تو وہ پوری پوری رات برآمدے میں اپنی کرسی پر بیٹھ کر بارش کو برستا دیکھتے رہتے تھے۔ بارش قدرتی مناظر کا حسین ترین مظہر ہے،یہی رحمت جب زحمت میں ڈھل جائے تو ارنسٹ ہیمنگوئے کے ناولوں کا استعارہ بن جاتی ہے، ارنسٹ ہیمنگ کے ناول فیئر ویل ٹو آرمز میں بارش جدائی موت اور تباہی کا علامت بن کے آتی ہے۔ ناول کےکرداروں کی زندگی میں جب کوئی ٹریجڈی رونما ہوتی ہے تو اس کے پس منظر میں بارش ہو رہی ہوتی ہے آخر میں جب اس ناول کی ہیروئن بچے کی پیدائش کے دوران انتقال کر جاتی ہے اور ناول کا ہیرو محبت کے بچھڑنے کے دل خراش لمحے سے گزرتا ہے اس وقت بھی پس منظر میں برستی بارش جدائی اور موت کی علامت بن کے سامنے آتی ہے ۔ماحولیاتی تبدیلی کا شا خسانہ ہےکہ مون سون کی بارشوں کے تیور بہت جارحانہ ہو چکے ہیں۔ہم نے کلاؤڈ برسٹ یعنی بادل کے پھٹنے کی اصطلاح پہلی بار سنی۔ کئی جگہوں پر کلاؤڈ برسٹ ہوا اور گویا آسمانوں سے بارش سیلاب کی صورت اتری اور انسانوں ،گاڑیوں، بسوں اور گھروں کو بہا کر لے گئی سیاحتی علاقوں میں بہت تباہی مچی ۔ چکوال میں سیلابی ریلوں سے بہت اموات ہوئیں وزیراعلیٰ نے وہاں مرنے والوں کے خاندان کیلئے پانچ لاکھ امداد کا اعلان کیا ۔ یہ امداد پنجاب بھر کے بارش متاثرین کو ملنی چاہئے ۔

بہت سے سانحے کسی خبر کاحصہ نہیں بنتے۔ میری گھریلو مددگار خاتون کا بہنوئی محنت مزدوری کےدوران بارش سے ڈھنے والی دیوار کے نیچے آکر جان ہارگیاوہ اپنے گھر کاواحد کفیل تھا ۔بارشوں اور سیلابی ریلوں سے متاثر ہونیوالے تمام غریب خاندانوں تک حکومت کی امداد پہنچنی چاہئے۔

گزشتہ ہفتے کالم میں بلوچستان کی شاہراہوں پر بے دردی سے قتل کر دیے جانے والے پنجابی نوجوانوں کا نوحہ لکھاتھاآج بلوچستان کی بانو کا ذکر ہو جائے ۔ اس کے اپنوں نے بقائمی ہوش و حواس اس کے وجود میں گولیاں اتاریں۔ اس روح فرسا قتل کی ویڈیو بنائی اس سانحے نے دہلا کر رکھ دیا۔سانحے کا پس منظر سب جانتے ہیں، بات یہ ہے کہ قصور کچھ بھی تھا وہ جیتے جاگتے انسان کو قتل کرنے کا جواز نہیں بن سکتا۔افسوس یہ ہے کہ بانو کے اپنے گھر والے بھی اس کے قتل پر دکھی نہیں نہ ان قاتل روایات پر شرمندہ ہیں۔

بانو کے بچوں کی باتیں سنیں تو مجھے مزید حیرت ہوئی کہ جیسے ان کی ماں کے وجود میں گولیاں اتارنا کوئی ظلم نہیں بلکہ ایک روٹین کا واقعہ ہے۔ اس کا سبب بلوچستان کی صدیوں پرانی قبائلی روایات ہیں جو غیرت کے نام پر کسی بھی عورت یا مرد کو موت کے گھاٹ اتارناقطعا ًجرم نہیں سمجھتیں۔

2008 ءمیں بھی اوستہ کے مقام پر پانچ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا گیا تھا، ہمیشہ کی طرح ایک طوفان اٹھا جو ایسی خبروںپراٹھتا ہے مجرموں کی سزا کا مطالبہ ہوا، کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اسرار زہری نے ایک جملہ کہا جو قبائلی رسم و رواج کی قابل نفرت ذہنیت کا عکاس ہے کہا کہ یہ ہماری قبائلی روایتیں ہیں اور ہمیں ان پر فخر ہے۔ان حالات میں اگر میں اور آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے شور مچانے سے قبائلی رسم و رواج بدل جائیں گے تو یہ ہماری خام خیالی ہے۔جب گھر والے ہی قتل کرنیوالے ہوں اور انکو بچانے والی نام نہاد غیرت کے نام پر قبائلی روایتیں اپنی جگہ سنگلاخ پہاڑوں کی طرح مضبوطی سے کھڑی ہوں تو انکی پناہ میں قاتل محفوظ رہیں گے ، پاکستان کی کوئی عدالت انکو سزا نہیں دے سکتی ۔ چند دن اور اس بہیمانہ قتل کا تذکرہ ہوگا پھر سب بھول جائیں گے کہ ایک بانو تھی جو بے غیرت قاتلوں کے نرغے میں سر اٹھا کرکہہ رہی تھی کہ صرف گولی مارنے کی اجازت ہے ۔

تازہ ترین