• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدا خدا کر کے کے پی کے میں سینیٹ کے انتخابات کے بعد ایوان بالا مجموعی طور پر مکمل ہو گیا ثانیہ نشتر کی خالی ہونیوالی نشست پر انتخاب رہ گیا ہے 8فروری2024ءکے انتخابی نتائج کے بعد پی ٹی آئی اور حکومتی اتحادمیں شامل جماعتوں کے درمیان مخصوص نشستوں کے حصول کیلئے طویل عدالتی جنگ ختم ہو گئی ہے جہاں قومی اسمبلی میں مخصوص نشستیں حکومتی اتحاداور دیگر جماعتوں میں بانٹ دی گئیں وہاں پنجاب ، کے پی کے سمیت دیگر صوبوں میں بھی انتخاب لڑنے والی جماعتوں نے’’مال غنیمت ‘‘ پر ہاتھ مار لیا ۔ مخصوص نشستوں کی تقسیم پرپی ٹی آئی نے شور شرابہ تو بہت کیا لیکن نقارخانہ میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟ کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت نے مخصوص نشستوں پر کامیاب قرار دئیے جانے25 ارکان کی حلف برداری میں آخری وقت تک رکاوٹ ڈالی لیکن حکومتی اتحاد نے آئین کے آرٹیکل 255(2)میں دئیے گئے دوسرے آپشن کو استعمال کر کے گورنرکے پی کے سے ارکان کو حلف دلوا دیا۔ کے پی کے میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، اے این پی کو نشستیں ملنے سے 145کے ایوان میں انکے ارکان کی تعداد53تھی لیکن اس اتحاد کے رہنمائوں امیر مقام اور طلحہ محمود نے خوبصورتی سےپتے کھیلے اور اپنی پارلیمانی قوت سے دو نشستیں زائد حاصل کرلیں۔وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور کو یقین تھا کہ اگر انہوں نے سہ جماعتی اتحاد سے انتخابی معاہدہ نہ کیا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ36 باغی ارکان سہ جماعتی اتحاد کے ارکان کو ووٹ دیکر انکو6نشستیں بھی حاصل نہ کرنے دیںگے اس طرح ایک طرف پی ٹی آئی کو سینیٹ کی نشستوں کا نقصان اٹھانا پڑتا دوسری طرف علی امین گنڈا پور پر عدم اعتماد ہوتا تیسری طرف کے پی کے میں ہارس ٹریڈنگ کی منڈی لگ جاتی لہٰذا علی امین گنڈا پور نے بانی پی ٹی آئی سے پنجاب کی طرح بلا مقابلہ انتخاب کیلئے سہ جماعتی اتحاد سے 6،5کے تناسب سے معاہدہ کر لیا لیکن علی امین گنڈا پور کے فیصلہ کیخلاف 5ارکان نے بغاوت کر دی وہ آخری وقت تک 4ارکان کو دستبردار کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن ایک باغی خرم ذی شان سخت ثابت ہو ا جس نے ایک ووٹ بھی حاصل نہیں کیا لیکن اس کی وجہ سے سب کو پولنگ میں جانا پڑا ۔ حیران کن بات یہ ہے پولنگ میں کوئی اپ سیٹ نہیں ہوا معاہدے کے مطابق ہی ووٹنگ ہوئی ہارس ٹریڈنگ کیلئے تیار ارکان منہ تکتے رہ گئے ۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس بمشکل ایک سیٹ حاصل کرنے کے ووٹ تھے جبکہ مسلم لیگی قیادت مولانا فضل الرحمن کو خوش کرنے کیلئے ایک نشست کی پہلے ہی قربانی دے چکی تھی اگر پیر صابر شاہ یا اقبال ظفر جھگڑا کا غذات نامزدگی جمع کراتے تو ممکن تھا پی ٹی آئی میں توڑ پھوڑ سے فائدہ اٹھایا جاتا امیر مقام نے شاہ گل آفریدی اور تاج آفریدی کو سینیٹ کا انتخاب لڑنے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا با امر مجبوری امیر مقام نے اپنے صاحبزادے نیاز احمد کو میدان میں اتارا اور مشکل حالات میں منتخب کروا کر ایک بار پھر ثابت کر دکھایا ہے کہ کے پی کے میں مسلم لیگ (ن) ابھی زندہ ہے امیر مقام پر خاندان میں نشستیں بانٹنے کا الزام عائد کرنے والے اس حقیقت سے آگاہ نہیں کوئی مسلم لیگی ہار جانےکے خدشے کے پیش نظر سینیٹ کا انتخاب لڑنے کیلئے ہی تیار نہیں تھا۔ کے پی کے میں پیپلز پارٹی کی کمزور پوزیشن تھی جمعیت علمائے اسلام نے طلحہ محمود پر دلاور خان کو ترجیح دی طلحہ محمود، جو سینیٹ کا انتخاب جیتنے کے تمام گر جانتے ہیں ،نے نہ صرف پیپلزپارٹی کو اپنی نشست طشتری میں پیش کی بلکہ خاتون کی نشست پر کامیابی کا ٹارگٹ پورا کیا، وہ براہ راست آصف علی زداری، بلاول بھٹو زرداری اور فریال تالپور سے رابطے میں تھے انہوں نے سہ فریقی اتحاد اور علی امین گنڈاپور کے درمیان انتخابی معاہدہ کروایا اور علی امین گنڈاپور کو باور کرا دیا کہ اگر انہوں نے معاہدہ نہ کیا تو ان کے36باغی ارکان سہ فریقی اتحاد کے امیدواروں کو ووٹ دینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) طلحہ محمود کیساتھ رابطہ میں تھی جبکہ جے یو آئی کو آئوٹ کیا جا رہا تھا جسے طلحہ محمود نے اِن کرایا ۔ دلچسپ امر یہ جے یو آئی طلحہ محمود کو انتخابی دوڑ سے باہر نکالنا چاہتی لیکن طلحہ محمود نے جمعیت علما اسلام کی بھی درپردہ مدد کر کے اسے دو نشستوں پر کامیابی دلوا دی اور خود کے پی سے مسلسل چوتھی بار سینیٹر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ طلحہ محمود نے سہ فریقی اتحاد اور پی ٹی آئی کے درمیان انتخابی معاہدہ ختم نہیں ہونے دیا۔ طے شدہ معاہدے کے مطابق امیدواروں کو ووٹ ملے ایک لحاظ سے بلا مقابلہ انتخاب ہو گیا، پی ٹی آئی نے مخصوص نشستیں کھو دینے کا کڑوا گھونٹ پی تو لیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ اسپیکر مخصوص نشستوں پر کا میاب قرار دئیے جانیوالے ارکان کیساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں پنجاب اسمبلی سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر حافظ عبدالکریم سینیٹر منتخب ہو گئے۔ سیاسی حلقوں میںیہ سوال زیر بحث ہے کہ پی ٹی آئی کی کے پی کے اسمبلی میں مطلوبہ تعداد ہونے کے با وجود علی امین گنڈاپور اپنی پانچویں نشست سے کیوں دستبردار ہوئے؟ یہ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کا شاخسانہ ہے ،کے پی کے میں پی ٹی آئی کے92ارکان ہیں سینیٹ کی ایک نشست کیلئے 19ارکان درکار تھےلیکن علی امین گنڈاپور 36ارکان کی ممکنہ بغاوت کے خدشے کے پیش نظر سہ جماعتی اتحاد کے سامنے اپنے آپ کو سرنڈر کرنے پر مجبور ہو گئے۔ پی ٹی آئی میں بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت پر بڑی لے دے ہوئی لیکن اپوزیشن جماعتوں میں بھی نظر انداز کئے جانیوالے رہنمائوں نے ناراضی کا اظہار کیا۔ اگر طلحہ محمود علی امین گنڈاپور کو مذاکرات کی میز پر نہ بٹھاتے تو اس بات کا امکان تھا کہ انتخابی نتائج توقع سے مختلف ہوتے۔ ایوان بالا میں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوگئی ہے قومی اسمبلی میں حکومت پہلے ہی دو تہائی اکثریت حاصل کر چکی ہے اب اسے آئینی ترمیم منظور کرانےکیلئے پاپڑ نہیں بیلنے پڑیں گے۔

تازہ ترین