• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر آصف علی زرداری کی حالیہ سفارتی ملاقاتوں اور بیرونی دوروں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے پاکستان کو ایک غیر جانب دار، متوازن اور باوقار ریاست کے طور پر پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین، ایران، سعودی عرب اور ترکی جیسے ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانا ان کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔ خاص طور پر پاک ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے زرداری صاحب کی حالیہ گفتگو اور سفارتی کوششیں قابل تحسین ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ توانائی کے بحران سے نکلے بغیر معیشت کا پہیہ نہیں چل سکتا اور اس کیلئے بین الاقوامی سطح پر ہمیں مضبوط مؤقف اور مذاکراتی مہارت کی ضرورت ہے، جو انکے پاس موجود ہے۔

علاقائی سیاست میں بھی ان کا کردار غیر معمولی ہے۔ افغانستان کے حوالے سے ان کی پالیسی محتاط لیکن حقیقت پسندانہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی لانا صرف بیانات سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ممکن ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر بھی انہوں نے خاموش سفارت کاری کو ترجیح دی ہے تاکہ بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کا مؤقف مضبوط رہے۔ انکا یہ طرز سیاست شاید عام عوام کو فوری نتائج نہ دکھائے، لیکن طویل المدتی قومی مفادات کیلئے نہایت موزوں ہے۔

ملک کی داخلی سیاست میں اگرچہ ان پر یہ الزام ضرور عائد کیا جاتا ہے کہ وہ پس پردہ فیصلے کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی پس پردہ سیاست اکثر ریاستی بحرانوں کو ٹال دیتی ہے۔ حالیہ مہینوں میں جب پنجاب اور خیبرپختونخوا میں سیاسی بے یقینی کا ماحول پیدا ہوا، تو زرداری صاحب نے درپردہ ملاقاتوں، مشاورت اور مفاہمت سے ایک بڑے تصادم کو روکنے میں کردار ادا کیا۔ وہ لڑائی کے بجائے مصالحت کو ترجیح دیتے ہیں، اور یہی رویہ انہیں اپنے ہم عصروں سے مختلف بناتا ہے۔صدر زرداری کی سیاسی حکمت عملیوں کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ وہ نوجوان قیادت کو آگے لانے کے حامی ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ بلاول بھٹو زرداری کو ایک جمہوری طریقے سے پارٹی کے اندر اُبھارنے کی کوشش کی۔ نہ تو پارٹی پر اپنی گرفت مکمل چھوڑ دی اور نہ ہی بلاول کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ بلکہ ایک ایسی سیاسی منتقلی کی بنیاد رکھی جو شاید پاکستان کی دیگر جماعتوں کیلئے ایک مثال بن سکتی ہے۔اس وقت جب ملک ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جب مہنگائی، بیروزگاری، اور معاشی بحران نے عوام کو پریشان کر رکھا ہے، زرداری صاحب کا پختہ لہجہ، سیاسی تجربہ اور داخلی و خارجی توازن رکھنے کی صلاحیت ہمیں کسی بڑے بحران سے بچا سکتی ہے۔ ان کے ناقدین بھی اس بات کو ماننے پر مجبور ہیں کہ وہ ایک سیاسی حقیقت ہیں، اور انہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ ان کی موجودگی خود ایک توازن کا کام کرتی ہے۔یقیناً ان کے سیاسی سفر میں کمزوریاں، کوتاہیاں اور غلط فیصلے بھی شامل ہیں، لیکن ان کی مجموعی بصیرت، جمہوریت سے وابستگی، اور ریاستی اداروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش انہیں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔ آج جب ہم اُن کی سالگرہ کے موقع پر انہیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں، تو ہمیں یہ عہد بھی کرنا ہو گا کہ پاکستان کی سیاست میں برداشت، مفاہمت اور جمہوری روایات کے فروغ کیلئے ہم بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔آصف علی زرداری کی سیاست ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں، چہرے پر مسکراہٹ رکھ کر، وقت کا انتظار کر کے، اور چالاکی سے بساط پر مہرے چل کر بہت کچھ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ آج اُنکی 70ویں سالگرہ اُنکے سیاسی وژن، استقامت اور پاکستان کیلئے اُن کی خدمات کا اعتراف کرنے کا دن ہے۔

تازہ ترین