• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روزانہ دو کیوی کھانا قبض سے نجات میں مددگار، نئی تحقیق

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

دائمی قبض میں مبتلا افراد کے لیے پہلی بار ایک سرکاری فہرست جاری کی گئی ہے جس میں ایسی غذاؤں کا ذکر کیا گیا ہے جو آنتوں کی حرکت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، حیرت انگیز طور پر اس میں کیوی فروٹ بھی شامل ہیں۔

یہ نئی ڈائٹری گائیڈلائنز برطانیہ کے کنگز کالج لندن کے ماہرین نے تیار کی ہیں اور انہیں برٹش ڈائیٹک ایسوسی ایشن کی توثیق حاصل ہے۔ یہ رہنما اصول سائنسی شواہد پر مبنی ہیں اور ان بالغوں کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں جو اس تکلیف دہ عارضے میں مبتلا ہیں، جو لاکھوں افراد کی زندگی کے معیار کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

اب تک طبی مشورے صرف اتنے تک محدود تھے کہ زیادہ فائبر کھائیں اور زیادہ پانی پئیں، مگر نئی تحقیق، جو بیک وقت دو بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہوئی اور جسے نظامِ ہضم کے لیے ایک اہم سنگِ میل قرار دیا گیا، نے پہلی بار واضح طور پر بتایا ہے کہ کون سی غذائیں اور سپلیمنٹس واقعی مؤثر ہیں اور کون سی نہیں۔

تحقیق کاروں نے 75 کلینیکل ٹرائلز کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا اور قبض کے بارے میں پرانی روایتی باتوں کو چیلنج کرتے ہوئے کچھ گھریلو نسخوں کو غیر مؤثر جبکہ دیگر کو سائنسی طور پر کارآمد قرار دیا۔

مطالعے میں انکشاف ہوا کہ روزانہ دو سے تین کیوی پھل چار ہفتے تک کھانے سے آنتوں کی حرکت میں نمایاں بہتری دیکھی گئی۔

اس کے برعکس کچھ مشہور طریقوں کو غیر مؤثر قرار دیا گیا۔ تحقیق کے مطابق، عمومی ہدایت کہ ’’بس زیادہ فائبر کھائیں‘‘ مفید ثابت نہیں ہوئی، کیونکہ فائبر کا ذرائع کے لحاظ سے انتخاب زیادہ اہم ہے۔

تحقیق کے مصنفین کے مطابق یہ نتائج ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہیں جو قبض کے مریضوں کو غذائی تبدیلیوں کے ذریعے خود اپنی حالت کو بہتر بنانے اور ڈاکٹروں، نرسوں اور غذائی ماہرین کو زیادہ مؤثر علاج تجویز کرنے میں مدد دیں گے۔

کنگز کالج لندن میں نیوٹریشنل سائنسز کی ریڈر اور اس تحقیق کی مرکزی مصنفہ ڈاکٹر ائیرینی ڈیمیڈی نے کہا کہ ’’دائمی قبض انسان کی روزمرہ زندگی کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔ پہلی بار ہم نے واضح رہنمائی فراہم کی ہے کہ کون سی غذائیں واقعی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں اور کون سا مشورہ محض اندازوں پر مبنی ہے۔‘‘

تحقیق کے مطابق قبض کا مسئلہ ہر چھ میں سے ایک بالغ فرد کو متاثر کرتا ہے اور یہ ڈاکٹروں کے پاس جانے اور ادویات کے استعمال کی ایک بڑی وجہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی رہنما ہدایات سے ڈاکٹروں کے لیے یہ ممکن ہو سکے گا کہ وہ مریضوں کو ان کی علامات کے مطابق مخصوص مشورے دیں، جیسے فضلے کی مقدار، نرمی یا دباؤ کی کیفیت، بجائے اس کے کہ سب کے لیے ایک ہی مشورہ دیا جائے۔


نوٹ: یہ مضمون قارئین کی معلومات کیلئے شائع کیا گیا ہے۔ صحت سے متعلق امور میں اپنے معالج کے مشورے پر عمل کریں۔

صحت سے مزید