• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرانس کے بعد برطانیہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ غزہ کی صورتِ حال برقرار رہی تو وہ فلسطین کو تسلیم کر لے گا۔آپ کے خیال میں فلسطین کا مسئلہ ہے کیا؟ یہ پورا مسئلہ جس مرکزی نقطے کے گرد گھومتا ہے ، وہ یہودیوں کی یہ سوچ ہے کہ بنی اسرائیل سے باہر اللّٰہ کوئی پیغمبر کیسے مبعوث کر سکتاہے اور وہ بھی آخری نبی۔ پہلے انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو تسلیم کرنےسے انکار کیا اور انہیں مصلوب کرنے کی کوشش کی ۔ بعد ازاں جب رسالت مآب ﷺمبعوث ہوئے اور وہ بھی آخری پیغمبر کی حیثیت سے تو یہودیوں کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ حضرت عیسیٰ ؑ کو انہوں نے چھوڑ دیا اور رسالت مآب ﷺکے پیچھے پڑ گئے ۔ یہودیوں نے محسوس کیا کہ عیسائی اصل خطرہ نہیں ، اصل خطرہ صرف اور صرف مسلمان ہیں ۔

عیسائی ممالک اب کیوں فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں ۔ جواب :احساسِ جرم ۔ عیسائی جب فلسطین کے اندر یہودی ریاست قائم کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے تو انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہودی اس حد تک خواتین اور بچوں کی قتل و غارت کرینگے ۔فلسطین کے اندر اسرائیل کی بنیاد رکھنے والے عیسائی بھی مسلمانوں کو اپنے لئے اصل خطرہ سمجھتے تھے ۔اسی لیے برطانیہ نے یہ سازشی قدم اٹھایا ۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ برطانیہ ، کینیڈا اور فرانس نے جب غزہ کی قتل و غارت کے خلاف بات کی تو نتن یاہو نے ان تینوں ممالک سے کہا : تم انسانیت کی غلط سمت میں کھڑے ہو۔ تم قاتلوں (حماس ) کی حمایت کر رہے ہو۔ خود وہ اس وقت تک چالیس ہزار عورتوں اور بچوں کو غزہ میں قتل کر چکا تھا ۔اسرائیل کی غزہ جنگ کا کوئی مستقبل نہیں ۔ جو کچھ غزہ کے ساتھ کیا جا سکتا تھا ، وہ کیا جا چکا۔ پورے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ۔دو ملین آبادی کو بھوکا مارنے کی کوشش کر کے دیکھ لیا۔ حماس نے توہتھیار نہیں پھینکے ؛البتہ عالمی برادری کا ایک حصہ اسرائیل کے خلاف ہو گیا ۔ اب جب خوراک غزہ میں جانا شرو ع ہوئی ہے تو لازمی طور پر حماس تک بھی اس کا ایک حصہ پہنچ چکا ہے ۔ اب وہ تازہ دم ہے ۔ ایٹم بم پھینکنے کے علاوہ اور کوئی ایسا حربہ موجود نہیں ، جسے اسرائیل استعمال نہ کر چکا ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی فرسٹریشن اپنی انتہا پر ہے ۔حماس کیخلاف جنگ کے دوران ایران کیساتھ کشمکش اور شکست اسرائیلی فرسٹریشن کی ایک اور بہت بڑی وجہ ہے ۔ اس جنگ میںایرانی آرمی چیف سمیت چوٹی کی ایرانی فوجی اور سائنسی قیادت شہید کر دی گئی ۔ اس کے باوجود ایرانی میزائل اسرائیل میں گرے اور آئرن ڈوم کا بھانڈا پھوٹ گیا ۔ یہ بھرم ختم ہو گیا کہ اسرائیل کا دفاع ناقابلِ شکست ہے ۔اسرائیل کا سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ امریکی سیاستدانوں کو رام کرنے سمیت ، وہ دنیاوی فیکٹرز کو تو مکمل طو ر پر قابو کر لیتا ہے ۔ یہ مگر بھول جاتے ہیں کہ خدا ئی منشا بھی کوئی چیز ہے ، یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں آزاد لوگ بھی پائے جاتے ہیں ، جنہیں بہلایا پھسلایا جا سکتاہے اور نہ وہ خوفزدہ ہو تے ہیں۔ حماس کو خوفزدہ کرنے اور اسکا حوصلہ توڑنے میں وہ ناکام رہے ۔

حماس اور ایران کو ختم کرنے میں ناکامی کے بعد اسرائیل کی فرسٹریشن اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے ۔ اب وہ کیا کرے گا؟ تمام قرائن اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اپنی اس فرسٹریشن کا اظہار وہ مزید جارحیت کی صورت میں کرے گا۔ بائیس لاکھ فلسطینیوں کے درمیان موجود حماس کے ایک ایک جنگجو کو ڈھونڈ کر شہید نہیں کیا جا سکتا؛البتہ اسرائیلی فضائیہ خطے کے کسی بھی ملک کی فضائوں پہ راج کر سکتی اور اس کی آبادیوں کو کھنڈر بنا کر اپنی دہشت قائم کرنے کی کوشش کر سکتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر برطانیہ ، فرانس اور دیگر یورپی ممالک فلسطین کو تسلیم کرنے کی طرف بڑھتے ہیں تو اسرائیلی فرسٹریشن میں اضافہ ہی ہو گا، کمی نہیں ۔

یہی بنی اسرائیل تھے، آل فرعون نے جن کا حال غزہ جیسا کر رکھا تھا۔ اس وقت ان سے زیادہ مسکین اور نیک قوم اور کوئی نہیں تھی۔

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

تازہ ترین