(گزشتہ سے پیوستہ)
ہم تو پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ ضلع لاہور اور ڈویژن کے اندر کئی ریلوے اسٹیشنز مع اپنی عمارات کے موجود ہیں مگر کسی حکومتی رکن نے کبھی ان 17اسٹیشنوں پر جانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ماضی کے کسی ریلوے منسٹر اور موجودہ ریلوے وزیر حنیف عباسی نے بھی ان ریلوے اسٹیشنوں کا کبھی دورہ نہیں کیا۔آئیے تاریخ کو ایک مرتبہ دہراتے ہیں۔17 ریلوے اسٹیشنوں کے نام یہ ہیں ۔شاہدرہ باغ جنکشن ریلوے اسٹیشن، بادامی باغ لاہور کا مرکزی ریلوے اسٹیشن ،میاں میر ریلوے اسٹیشن ،والٹن ریلوے اسٹیشن( جو اب صرف فلیگ اسٹیشن رہ گیا ہے )مغلپورہ ریلوے اسٹیشن (جہاں پر کئی ڈراموں اور فلموں کی شوٹنگز ہوئی تھیںجوآج بھی ولایت کے کسی گاؤں کا ریلوے اسٹیشن لگتا ہے)، ہربنس پورہ ریلوے اسٹیشن( جو راجہ ہربنس نےبنوایا تھا جہاں پر آج قبضہ مافیہ نے پولٹری فارم، لکڑی کا آرا ،مشینیںاور مسجد قائم کردی ہے اور دیگیںپکانے کا کاروبار بھی اس تاریخی ریلوے اسٹیشن پر ہوتا ہے)، مسلم آباد ریلوے اسٹیشن،واہگہ ریلوے اسٹیشن ،جلوریلوے اسٹیشن، کوٹ لکھپت ریلوے اسٹیشن ،رائیونڈ ریلوے اسٹیشن، کاہنا کاچھا ریلوے اسٹیشن ،جیا بگا ریلوے اسٹیشن، ہیڈ بلوکی ریلوے اسٹیشن ،ہلو کی ریلوے اسٹیشن ،گرین ٹاؤن ریلوے اسٹیشن ، اس کے علاوہ کئی فلیگ اسٹیشنز بھی ہیں۔آج حکومت اربوں روپے لگا کر ٹرام اورکئی دوسری رنگ برنگی ٹرینیں بنا رہی ہے جسکی بالکل ضرورت نہیں ۔ان تمام ریلوے اسٹیشنوں پر ریل کی پٹریاں موجود ہیں۔عمارات ہیںسگنل ہیں اور ریلوے کیبن روم( کانٹا تبدیل کرنیوالے کمرے) موجود ہیں پھر حکومت کیوں انہی لائنوں پر خوبصورت اور جدید ریل کے ڈبے اور انجن نہیں چلاتی۔یہ سب کچھ ممکن ہےبغیرکوئی درخت کاٹے۔ بغیر زمین کی کھدائی کیے۔ ارے سب کچھ تو موجود ہے ۔ ابھی صرف 40 سال پہلے ان تمام ریلوے لائنوں پر ریل گاڑیاں دوڑ رہی تھیں ۔حیرت ہوتی ہے کہ حکومت پہلے سے موجود انفراسٹرکچر کو چھوڑ کر نئے منصوبے کیوں شروع کر دیتی ہے یقین کریں یہ تمام ریلوے اسٹیشنزبہت خوبصورت ہیں ان کی عمارات دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ا رے بابا انگریز یہ تمام ریلوے اسٹیشنز، مشینری اور آلات تو ہمارے پاس رواں دواں چھوڑ کر گیا تھا مگر ریلوے کے کرپٹ افسروں اور کرپٹ وزرانےآج ریلوے کو اس حال میں پہنچا دیا ہے ۔اسی طرح یہ جو نئی رنگ برنگی ٹرینیں اورٹرام شروع کر رہے ہیں حسب معمول اس میں پھر کرپشن ہوگی پھر انکوائریاں اور کئی لوگ کروڑ اور ارب پتی ہو جائیں گے۔ پتہ نہیں کون سی بیوروکریسی حکومت کو ایسے مشورے دیتی رہتی ہے پچھلے ہفتے وزیراعظم شہباز شریف نے لاہور ریلوے اسٹیشن پر کئی جدید سہولتوں کا افتتاح کیا خصوصاََپلیٹ فارم نمبر دو اور چارپر جدید اسکیلیٹر سی آئی لائونج، کھانے کے لیے جدید ہال،ڈائننگ ہال، مردوں کے لیے علیحدہ انتظار گاہ اور خواتین کے لیے بھی علیحدہ انتظارگاہ بنائی گئیں۔ ریلوے کے ڈائریکٹر پی آر بابر کےبقول یہ ریلوے اسٹیشن آپ کو بدلا ہوا لاہور نظر آئے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف، ریلوے وزیر حنیف عباسی نے یقیناََعوام کے لیے ایک اچھا قدم ضرور اٹھایا مگر ہمارے ملک میں ہوتا کیا ہےکہ کچھ عرصے بعد چیزیں خراب ہونا شروع ہو جائیں گی اور پھر کوئی توجہ نہیں دے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ لوگ ان سہولیات کا استعمال تمیزسے اور اپنی چیز سمجھ کر نہیں کرتے ۔ ہم نے تو یہ دیکھا کہ اس ملک کا ہر منصوبہ اور ہر چیز کچھ عرصے بعد تبا ہ و برباد ہو جاتی ہے ۔کاش وزیراعظم شہباز شریف ان سہولیات کا افتتاح کرنے ٹرین کے ذریعے آتے اور ٹرین پر ہی واپس جاتے تو عوام میں کتنا اچھا تاثر مرتب ہوتااورپروٹوکول کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ماضی میں صدر ایوب خان ،گورنر کالا باغ نواب امیر محمد خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو کئی مرتبہ ٹرین کا سفر کر چکے ہیں ۔ریلوے میں وزیراعظم کا اپنا سیلون ہے جسے کئی سابق وزرائے اعظم استعمال کر چکے ہیں ۔بے نظیر بھٹو نے سیلون میں اپنے بچوں کیلئے علیحدہ بیڈ لگوایا تھا۔جب تک حکمران خود ٹرینوں پر سفر نہیں کریں گے ریلوے کا نظام کبھی بہتر نہیں ہوگا ۔خیر ریلوے والوں نے پلیٹ فارم نمبر دو اور چار کا انتخاب اس لیے کیا کہ وہ پلیٹ فارم بڑے تھے ہمارا خیال ہے کہ سارے پلیٹ فارم ایک جیسے ہوں گے حالانکہ پلیٹ فارم نمبر 1اس حوالے سے تاریخی ہے کہ جب ریلوے کا آغاز گورو ںنے کیا تو پہلی ٹرین پلیٹ فارم نمبر1سےامرتسرگئی تھی جسکی ریلوے لائن آج بھی موجود ہے دوسرے پلیٹ فارم نمبر ایک اور دو میں ہالی ووڈنے پہلی اور آخری مر تبہ ایک تاریخی رومانوی فلم بھوانی جنکشن کی شوٹنگ کی تھی۔ ہمارے خیال میں ریلوے والوں کو لاہور ۱۹۵۵ کے پلیٹ فارم نمبر1کا انتخاب کرنا چاہئے تھا۔ اسی پلیٹ فارم نمبر 1پر بھارت سے مہاجرین کےقافلے بھی آئے تھے ۔بات پھر وہی ہے کہ ہم ہر تاریخی چیز کی قدر نہیں کرنا چاہتے۔ ہم ایک تو تعلیم یافتہ نہیں دوسرے اپنے علم کو بہتر بھی نہیں کرنا چاہتے۔ گوروں نے بھی اپنے زمانے میں بڑے خوبصورت ویٹنگ روم بنائے تھے جہاں پر باوردی بیرے لوگوں کو چائے اور کھانے پینے کی اشیاء دیا کرتے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ جس ٹرین کا افتتاح وزیراعظم شہباز شریف نے کیا اسی ٹرین پر ان کو خود جانا چاہیے تھا ۔خیر ٹرین کا افتتاح تو ہو گیا اب دیکھتے ہیں کہ کتنےدن اور یہ ٹرین اپنا معیار برقرار رکھتی ہے۔ ارے بابا ریلوے کی پٹڑیوں کی حالت بہتر کرو، انجن بہتر کرو۔ گوروں کے بنائے ہوئےا سٹیم انجن تو آج بھی کام کرنے کے قابل ہیں۔ لاہور ریلوے اسٹیشن بڑا تاریخی اور خوبصورت ریلوے اسٹیشن ہے۔ ریلوے اسٹیشن کی عمارت قلعہ نما ہے اور تاریخی عمارت میں جا بجا مینار تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہ پاکستان کے تمام ریلوے اسٹیشنز سے زیادہ خوبصورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور ریلوے اسٹیشن کی زمین لاہور کے ایک آرائیں خاندان کی تھی جو انہوں نے انگریز سرکار کو فروخت کی تھی۔ (جاری ہے)