• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معروف فلاسفر اور دانشور نطشے نے کہا تھا:’’کچھ لوگوں کے بارے میں پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ وہ یکا یک بغیر کسی عِلت اور سبب کے ،بغیرکسی لحاظ و جواز کے، مقدر کی طرح اچانک نمودار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ آسمانی بجلی کی طرح چمکتے ہیں،وہ ہیبت ناک بھی ہوتے ہیں اور جابر بھی۔ لیکن انکی عظمت اتنی خیرہ کن ہوتی ہے کہ کوئی ان سے نفرت بھی کرنا چاہے تو نہ کرسکے۔ انہیں جو قوت متحرک اور فعال رکھتی ہے وہ شدید نوعیت کی خودستائی ہے۔ بالکل ایسی ہی خودستائی جیسی کوئی فنکار لازوال فن پارہ تخلیق کرنے پر محسوس کرتا ہے یا کوئی ماں بچے کو جنم دینے کے بعد محسوس کرتی ہے۔‘‘ نطشے کی یہ بات مکمل طور پر نہ سہی مگر جزوی اعتبار سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر صادق آتی ہے۔ آپ اس قسم کے افراد سے متعلق کوئی بات مکمل وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے۔ کسی قسم کی پیش بینی نہیں کی جاسکتی کہ مستقبل میں انکا جھکائو کس طرف ہوگا۔مثال کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسری بار صدر منتخب ہونے سے پہلے پاکستان اور بھارت کے جن حلقوں میں جشن طرب برپا تھا، آج وہاں صف ِماتم بچھی نظر آتی ہے۔ ہمارے ہاںطفلان انقلاب یعنی عاشقان ِعمران کو ٹرمپ کی قصر سفید واپسی سے بہت اُمیدیں تھیں تو بھارت میں مودی کے پیروکاروں نے سماں باندھ رکھا تھا۔ یہاں یہ مژدہ جانفزا سنایا جارہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بطور صدر حلف لینے کے بعد سب سے پہلے راولپنڈی ٹیلیفون کریں گے اور کہیں گے میرے دوست عمران خان کو فوری طور پر رہا کردیا جائے ۔اسی طرح وہاں یہ خوشخبری دی جارہی تھی کہ ٹرمپ مودی کا یار ہے اور اسکے دوبارہ امریکی صدر بن جانے سے امریکہ بھارت تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ واشنگٹن سے راولپنڈی ٹیلیفون کال تو آئی مگر فیلڈ مارشل عاصم منیر کا شکریہ ادا کرنے کیلئے۔ اور تب سے اب تک امریکی صدر نہ صرف افواج پاکستان کے سپہ سالار کی تعریف و توصیف کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے بلکہ وزیراعظم شہبازشریف کو بھی اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ عاشقان عمران کی طرح محبان مودی بھی غم زدہ و افسردہ ہیں۔ گزشتہ ہفتے تو انہیں ایسا صدمہ پہنچا کہ بیچارے ابھی تک اس کیفیت سے نہیں نکل پائے۔ امریکی صدر نے نہ صرف بھارت پر 25فیصد ٹیرف اور جرمانے کے نفاذ کا اعلان کیا بلکہ ان سات بھارتی کمپنیوں پر بھی پابندی عائد کردی جو ایران سے تیل کی خریداری میں ملوث تھیں۔ابھی اس ناگہانی صورتحال سے سنبھل نہیں پائے تھے کہ امریکی صدر نے پاکستان کیساتھ تیل کے وسیع ذخائر مشترکہ طور پر دریافت کرنے کیلئے پاکستان کیساتھ تاریخی معاہدے کا بم گرا دیا اور ساتھ یہ طنزکرنا نہیں بھولے کہ شاید ایک دن ایسا بھی آئے کہ پاکستان بھارت کو تیل برآمد کررہا ہو۔صرف یہی نہیں بلکہ سب منتظر تھے کہ امریکی انتظامیہ کی طرف سے پاکستانی مصنوعات پر کتنا ٹیرف لگایا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ بھارت پر25فیصدجبکہ بنگلہ دیش ،سری لنکا اور ویت نام پر 20فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے مگر پاکستانی مصنوعات پر 19فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حیران اور پریشان کردینے کی روش بہت پرانی ہے۔ جب یہ صاحب پہلی بار امریکی صدر منتخب ہوئے تو ان کی کامیابی بذات خود کسی عجوبے سے کم نہیں تھی مگر انہوں نے بطور صدر حلف لینے سے پہلے پاکستان میں ایک ٹیلیفون کال کرکے سب کوششدر کر دیا۔ مجھے آج بھی بہت اچھی طرح سے یاد ہے۔یکم دسمبر2016ء کو وزیراعظم نوازشریف کی نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلیفون پر بات ہوئی۔ جب گفتگو کے مندرجات سامنے آئے تو مجھے لگا شاید کسی نقال نے ڈونلڈ ٹرمپ بنکر نواز شریف کی ’’پھرکی‘‘ لینے کی کوشش کی ہے۔کیونکہ ٹرمپ نے نواز شریف کو عظیم ترین انسان قرار دیتے ہوئے کہاکہ آپ زبردست ساکھ کے حامل ہیں اور بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جسکے اثرات ہر شعبے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔بات یہیں تک رہتی تو ہضم ہو سکتی تھی مگر ٹرمپ نے کہا،آپ سے بات کرتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ہمارا برسوں کا یارانہ ہے۔ جب وزیراعظم نوازشریف نے انہیں دورہ پاکستان کی دعوت دی تو نہ صرف انہوں نے جھٹ سے قبول کر لی بلکہ یہ بھی کہا کہ آپ کا ملک بہت شاندار ہے اور پاکستانی ذہین ترین لوگوں میں سے ہیں۔ بائے کہنے سے پہلے ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ آپ 20جنوری کو میری حلف برداری سے پہلے جب چاہیں ٹیلی فون کر سکتے ہیں۔ اور پھر ٹرمپ نے نوازشریف کو ’’Terrific Guy‘‘ کہہ دیا۔میں نے وزیراعظم کے پریس سیکریٹری محی الدین احمد وانی سے رابطہ کیا او ر پھر انفارمیشن گروپ کے افسر شفقت جلیل سے بات کی۔محی الدین وانی آج کل اسلام آباد میں بین الصوبائی وزارت کے سیکریٹری ہیں جبکہ شفقت جلیل جو بعد ازاں پرنسپل انفارمیشن آفیسر اور سیکریٹری انفارمیشن رہے،وہ ریٹائر ہوچکے ہیں۔ ان دونوں اصحاب نے تصدیق کی کہ کال اصلی تھی اور اس حوالے سے تمام ریکارڈ دستیاب ہے۔اگر عاشقان عمران اور محبان مودی یکم دسمبر2016ء کو کی گئی اس ٹیلیفون کال کو سنجیدگی سے لیتے اور سبق حاصل کرتے تو شاید انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ہم نے پاک امریکہ تعلقات کے دوران بہت سے اُتار چڑھائو دیکھے ہیں۔ہم نے صدر آئزن ہاور کے زمانے میں امریکی سردمہری کا سامنا کیا مگر پھر جان ایف کینیڈی اور لنڈن بی جانسن کے دور کی گرمجوشی ملاحظہ کی۔امریکی صدر کارٹر کے مونگ پھلی کے دانے جیسی’’سخاوت‘‘کو پائے حقارت سے ٹھکرایا اور پھر ریگن کی پیشکش قبول کی۔امریکی صدر بل کلنٹن کے دور میں جوہری دھماکوں پر پابندیوں کا سامنا کیا اور پھر جارج بش کی آمد پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اگاڑی ریاست کا درجہ حاصل کیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد میں جاری نوازشات اور مہربانیوں کا سلسلہ کب تک قائم و دائم رہیگا، اس حوالے سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی لیکن جب تک یہ پلڑا ہماری طرف جھکا ہوا ہے، ہمیں خزاں رسیدہ موسموں کاذکر کرکے ان لمحات کو ضائع کرنے کے بجائے موسم بہار سے لطف اندوز ہونا چاہئے۔

تازہ ترین