کوئی شک نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں وقوع پذیر ہونے والا بائیس اپریل کا سانحہ پہلگام پورے ہندوستان کیلئے دل دہلا دینے والا اذیت ناک منظر نامہ تھا جسکی خبر ملتے ہی پرائم منسٹر نریندر مودی دورہ سعودی عرب ادھورا چھوڑ ، اپنے دیش پدھارے۔ اسکے بعد ان کا مرنے والے بے گناہوں کے لواحقین سے ملنا اور اپنے سکیورٹی محکموں اور ایجنسیوں سے تفصیلی میٹنگز بھی قابل فہم تھیں تاکہ سانحہ کے مرتکبین تک جلد پہنچا جاتا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ مودی سرکار محنت اور عرق ریزی سے اس سانحہ کے ماسٹر مائنڈز تک پہنچتی، کسی بھی طرح انہیں زندہ پکڑتی کہ صرف ایسی صورت ان کے ہاتھ ثبوت آ سکتے تھے جنہیں وہ سفارتی محاذ پر پوری دنیا کے سامنے لایا جا سکتا تھا ۔ تاہم اس موقع پرنریندرمودی نے بڑے نیتا کا نہیں ایک سستی شہرت کے حریص سیاستدان کا رویہ اپنایا۔ اپنے مخصوص جنونی لوگوں کو خوش کرنے کیلئے نہ صرف یہ کہ غیر سنجیدہ بیان بازی کی بلکہ حقائق کے قطعی برعکس نمائشی و بناوٹی حملوں کے ذریعے اپنا قد بظاہر اونچا کرنے کی کوشش کی۔ مانتا ہوں لوگوں کے جذبات بھڑکے ہوئے تھے، جنتا کرب سے گزر رہی تھی لیکن ایک نیتا کا کام ان کا مورال قائم رکھتے ہوئے انکی وہ رہنمائی ہوتا ہے جس سے ملک و قوم کو آگے چل کر حقیقی فائدہ پہنچے۔ بھڑکاؤ بھاشنوں سے عوامی ہمدردی کی سوچ اقتدار کے کسی حریض سیاستدان کی تو ہو سکتی ہے، جینوئن نیشنل لیڈر کی نہیں ۔ کوئی بھی بڑا اقدام اٹھانے سے پہلے زیرک لیڈر یہ ضرور سوچتا ہے کہ اس کے Consequences کیا برآمد ہوں گے؟ کہیں گیم الٹی تو نہیں پڑ جائے گی؟ اگر آپ امریکا سے انسپائر ہیں کہ وہ بھی تو آتنک وادیوں کو ترنت منہ توڑ جواب دیتا ہے تو سب سے پہلے تو آپ یہ مان لیں کہ آپ امریکا نہیں لہٰذا اپنے داخلی و خارجی معاملات طے کرتے ہوئے امریکا کو بطور Example فالو کرنے سے گریز فرمائیں۔خود کو امریکا سمجھنے کے واہمےسے آپ کے تعلقات کئی کینیڈا سمیت کئی مغربی ممالک سے خراب ہوئے۔ ترکی، ایران اور آذربائیجان کے ساتھ انڈین ریلیشنز میں خرابی کا کارن سوائے اس کے کچھ نہ تھا کہ آپ نے خود کو ضرورت سے کہیں زیادہ اونچا سمجھنا شروع کر دیا، خارجہ معاملات میں جو حساسیت یا نزاکت ہوتی ہے اس کا ادراک نہیں کیا گیا۔!دوسری بات یہ کہ آپ اسرائیل کی مثال کو سامنے رکھ کر غلط فہمی کا شکار نہ ہوں بالخصوص آپ یعنی بی جے پی اور مودی سرکار کو کئی حوالوں سے یہ سمجھنا ہو گا کہ انڈیا بوجوہ اسرائیل کو کاپی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ آپ لوگوں کو یہ تلخ سچائی اپنے دل و دماغ میں بٹھا لینی چاہیے کہ اسرائیل امریکا کا لاڈلا بچہ ہے جو آپ کسی صورت نہیں بن سکتے ۔ اس باوجود اسرائیل کو بھی مسائل درپیش ہیں، دوسرے اسرائیل کی خوش بختی یا بہتر سٹریٹجی ہے کہ اس کی بغل میں سات دہائیاں گزرنے کے باوجود آج تک ایک ساورن فلسطینی ریاست نہیں بن سکی۔ ایسے حالات میں اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اپنی جنتا کو امن سکون اور خوشحالی دینی ہے تو پھر اپنے پہلو میں بیٹھے اپنے جیسے ہمسایہ کے کچھ نخرے آپ کو اٹھانا ہونگے، یا بہتر معاملہ کرنے کا گر سیکھنا ہو گا، پیار اور بہترحکمت عملی سے۔ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اتنی بڑی ابھرتی عالمی طاقت چائنا آپ کی بالائی جانب براجمان ہے اور آپ کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باعث تناؤ بھی رکھتی ہے۔ تیسری جانب آپ اتنے کنفیوز ہیں کہ قدیمی دوست رشیا کو خوش رکھنا ہے یا اپنے نئے مغربی اتحادیوں کے مطالبات ماننے ہیں؟ آج کی دنیا میں فری کا ناشتہ یا لنچ کوئی نہیں کرواتا۔ اگر وہ سائنس ٹیکنالوجی اور ٹریڈسے لے کر انٹرنیشنل ایشوز تک آپ کو سپورٹ کریں گے تو اپنے کچھ تقاضے بھی آپ کے سامنے رکھیں گے۔آج کی دنیا کے انٹرنیشنل سسٹم میں ہر کوئی جکڑا ہوا ہے، ہر کسی کی مجبوریاں ہیں اور تقاضے بھی ، کوئی طاقتور سے طاقتور قوم بغیر ساتھیوں اور اتحادیوں کے تنہا کچھ نہیں،آپ کو اپنے مفادات کی ہر بدلتے لمحے خود نگرانی کرنی پڑتی ہے۔ یہ امپائرز کا نہیں نیشنل سٹیٹس کا دور ہے، لہٰذا آپ لوگ ناروا دشمنیاں بڑھانے سے گریز کریں۔ نتھورام بننے کی بجائے مہاتما گاندھی جیسے حوصلے سے کام لیں، جذبات میں دوسروں پر چڑھائی سے گریز کریں اور نہ کسی دوسرے کو خود پر چڑھائی کا موقع فراہم کریں البتہ اگر با امرمجبوری یدھ کی نوبت آ جائے تو شتابی یا دباؤ میں’’نریندر سرنڈر‘‘کا مذاق مت بنیں۔