• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاست میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اقتدار کی کرسی کے آس پاس پھرتے ہیں اور کچھ ایسے بھی گزرے ہیں جو اقتدار کے ایوانوں کے بجائے اپوزیشن کی صفوں میں تاریخ رقم کرتے ہیں۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کا تعلق دوسری قسم سے تھا۔ وہ بابائے جمہوریت کہلائے، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ کبھی لیلائے اقتدار کے اسیر نہ ہوئے۔ انکی سیاست کا میدان اسمبلی کے فلور سے زیادہ لانگ مارچ، جلسوں، اور سیاسی اتحاد بنانے کی میز ہوا کرتی تھی۔

نوابزادہ صاحب کی پہچان صرف ان کی شاندار وضع داری، کشادہ دلی اور چائے کے بڑے بڑے کپ نہیں تھے، بلکہ وہ ایک ایسے زمانے میں بھی اصولوں پر ڈٹے رہے جب اصول کتابوں میں اور سیاست مفاہمت کے کمروں میں قید تھی۔ ایوب خان سے لے کر مشرف تک ہر آمر کے خلاف اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں ان کا کردار کلیدی رہا۔ وہ پارٹی پرچم سے زیادہ جمہوری اصول کے وفادار تھے۔ شاید اسی لیے وہ کبھی وزیر نہیں بنے، مگر ہمیشہ ''قائدِ اپوزیشن'' بن کر زندہ رہے۔

آج کا منظرنامہ دیکھیں تو اپوزیشن میں کئی '' نوابزادے'' ہیں، مگر نہ وہ تدبر، سیاسی حکمت، نہ وہ سلیقہ اور نہ ہی وہ ''چائے کے دور'' جن میں بڑے فیصلے ہوا کرتے تھے۔ آج کے حالات میں نوابزادہ نصر اللہ خان جیسا رہنما یاد آتا ہے جو اقتدار سے زیادہ جمہوریت کو عزیز رکھتا تھا۔شاید موجودہ سیاسی ماحول میں سب سے زیادہ کمی اس مزاج کی ہے جو نوابزادہ صاحب کے پاس تھا—اختلاف میں شرافت، مزاحمت میں وقار، اور سیاست میں استقامت۔ آج کی اپوزیشن کو نہ صرف ایک ایسے قائد کی ضرورت ہے جو مختلف نظریات کے لوگوں کو ساتھ بٹھا سکے بلکہ ایسا شخص جو سیاسی مفادات سے زیادہ جمہوری اقدار کو مقدم رکھے۔ مگر افسوس! نوابزادہ نصر اللہ خان اب تاریخ کا حصہ ہیں، اور ان جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے۔پاکستان کی موجودہ سیاست گویا ایک ایسے قافلے کی مانند ہے جو ریگستان میں بھٹک رہا ہے، اور سب اپنے اپنے خیمے لگا کر الگ آگ جلا رہے ہیں۔گزشتہ دنوں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس کی صدارت جناب محمود خان اچکزئی نے کی تھی جبکہ ترجمانی کے فرائض سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے سرانجام دیے۔اپوزیشن اتحاد کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف اس وقت زیر عتاب ہے اس کے کارکنان جیلوں اور کچہریوں کے چکر کاٹ رہے ہیں جبکہ اس کے منتخب پارلیمنٹیرین عدالتوں سے نا اہلی کا تمغہ اپنے سینے پر سجا کر جیلوں میں بند ہیں اور کچھ لوگ روپوش ہیں۔اپوزیشن اتحاد کے حوالے سے متعدد تبصرے ہوئے لیکن ایک بزرگ کالم نگار نے تبصرہ کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ اپوزیشن کو چاہیے تھا کہ وہ معرکہ بنیان مرصوص کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتا۔ افواج پاکستان کی قربانیوں کی تعریف کرتا،بھارت کے خلاف فوج کو جو شاندار کامیابی حاصل ہوئی اسکا ذکر کرتا اور پھر جا کر اپنے لیے مطالبات پیش کرتا۔انہوں نے اس اعلامیہ پر کالعدم بی ایل اے کے اعلامیہ کی پھبتی کسی جو ہر گز انکے شایان نشان نہ تھی۔میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں محب وطن ہیں اور انکے لیڈر پاکستانی ہیں۔انکی حب الوطنی پر شک کرنا ہر گز مناسب نہیں۔جبکہ استاد محترم سہیل وڑائچ نے اس امر کا اظہار کیا کہ اپوزیشن اتحاد کی سب سے بڑی جماعت کو چاہئے تھا کہ وہ پہلے ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتی۔دور اقتدار میں اپنائے گئے غیر جمہوری رویوں پر تاسف کا اظہار کرتی خصوصا میڈیا کے حوالے سے غیر منصفانہ پالیسیوں کا اعتراف کرتی اور قوم سے معافی مانگتی اور پھر جا کر نئے میثاق جمہوریت کی بات کی جاتی۔یہ بات واقعتا قابل غور ہے کہ نیا سفر اسی وقت سود مند ثابت ہو سکتا ہے جب پرانی غلطیوں کا اعتراف کیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کو ایک نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں متفق ہو کر اپنے لیے کچھ رہنما اصول ترتیب دیں، ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے کے بجائے پاکستان کی مضبوطی کے لیے کام کریں، پاکستان سیاسی سرگرمی کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا اور سیاسی سرگرمیاں ہی اس کو مستحکم رکھ سکتی ہیں۔ آج کی اپوزیشن کے پاس نوابزادہ نصر اللہ خان جیسا مزاج رکھنے والے چند لوگ موجود ہیں جو اس وقت اپنی سیاسی فراست سے متحرک کردار ادا کر سکتے ہیں۔جناب محمود خان اچکزئی ہمیشہ جمہوری اصولوں کا علم لے کر میدان میں موجود رہے، انہوں نے کبھی کسی آمر کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی، ہمیشہ جمہوریت کا پرچم بلند رکھا،انکی موجودگی ملکی سیاست کے لیے خوش آئند ہے۔دوسری بڑی شخصیت مولانا فضل الرحمن کی ہے۔ جن کی فراست اور تدبر کا کوئی ثانی نہیں، وہ مشکل سے مشکل مرحلے سے نکلنے کا ہنر جانتے ہیں، اپوزیشن اور حکومت دونوں طرف ان کا احترام موجود ہے وہ یہ کردار ادا کر سکتے ہیں کہ دونوں طبقات کو ایک ٹیبل پر بٹھائیں اور پاکستان کے سیاسی کلچر کو متوازن رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔میری دانست میں تیسری شخصیت جو اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کے لیے قابل قبول ہے وہ سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی ہے جو عمر اور تجربے میں ان دونوں بڑے رہنماؤں سے قدرے پیچھے ہیں لیکن انہوں نے اپنے تدبر اپنی فراست کا جس طرح اعتراف کروایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔بطور سینیٹر اور اب بطور اپوزیشن رہنما انہوں نے حیرت انگیز صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے۔موجودہ سیاسی قائدین میں انکا تحرک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔یہ تینوں لوگ اپنی جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر پاکستان کی سیاست اور ریاست بچانے کیلئے اگر کوئی اقدامات کر سکیں تو یہ نہ صرف ریاست کا بھلا ہوگا بلکہ سیاست کی بھی خیر ہوگی اور ایک نیا نوابزادہ نصر اللہ خان پاکستانی سیاست کو نصیب ہوگا۔

تازہ ترین