اسلام آباد(مہتاب حیدر) ملک کے تجارتی اعداد و شمار میں پائی جانے والی تضادات مزید بڑھ گئے ہیں اور نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں، دی نیوز کو معلوم ہوا ہے۔متعلقہ وزارتیں اور محکمے ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں اور ذمہ داری دوسروں کے سر ڈال رہے ہیں۔ اگر تجارتی اعداد و شمار میں یہ تضاد، جو ہر گزرتے مہینے کے ساتھ بڑھ رہا ہے، بروقت اور درست طریقے سے حل نہ کیا گیا تو یہ سنگین مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔اعلیٰ سرکاری ذرائع کے مطابق یہ بنیادی طور پر اعداد و شمار جمع کرنے والے اداروں کی "رپورٹنگ میں غلطی" کا نتیجہ ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ ناقابلِ یقین ہوتا جا رہا ہے۔اس نامہ نگار نے پیر کے روز وزارتِ منصوبہ بندی کے ایک سینئر افسر سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس (PBS) اعداد و شمار رپورٹ کرتا ہے، مگر وہ تجارتی اعداد و شمار اکٹھا نہیں کرتا۔ درآمدات اور برآمدات کے اعداد و شمار اکٹھا کرنے کی ذمہ داری ایف بی آر کے کسٹمز اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ہے، جبکہ پی بی ایس صرف رپورٹنگ کرتا ہے۔گزشتہ ہفتے اس نامہ نگار نے پی بی ایس اور اسٹیٹ بینک دونوں کے ترجمانوں کو اس معاملے پر ان کا موقف لینے کے لیے سوال بھیجا، لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ذرائع کے مطابق تجارتی اعداد و شمار کے کچھ حصے ایسے ہیں جو متعلقہ اداروں کی جانب سے مکمل طور پر نہیں پکڑے جاتے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تضاد پیدا ہوتا ہے۔