• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج پاکستانی قوم پورے جوش و خروش کیساتھ اپنا 79واں یومِ آزادی منارہی ہے دانشور لوگ جہاں اپنی دانائیوں کے اصلی نقلی موتی بکھیر رہے ہیں وہیں ہر بچہ باجوں کی ٹاں ٹاں میںمشغول ہے۔ سیاسی لوگ اپنی عدم مقبولیت کی بحرانی کیفیت کو حب الوطنی کے نعروں سے پر کرنے میں جتے ہوئے ہیں کچھ محرومیوں کے مارے اپنے قیدی نمبر 804کی رہائی کے خبط میں سڑکوں پر نکلے ہجوم کو انصافی ہجوم ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ پنجاب کی قیادت اشتہار بازی کے تمام ریکارڈز توڑ رہی ہے۔ بلند پرواز اپنے طاقتور کے قصیدے پڑھتے ہوئے عالمی طاقتور کی شان میں بھی گنگنا رہے ہیں کہ شاید اگلے ماہ ڈنر کا بلاوا آجائے اورکرسی پکی ہوجائے۔ جناح فورتھ سیاسی بیانات کی پریکٹس کر رہا ہے۔ طاقتوروں کی سوچ بچار بھی جاری ہے۔ مذہبی جنونیت پھیلانے کی نئی ترکیبیں قبضہ گیری کے ذریعےسامنے ہیں۔رہ گئے عوام کالانعام، میڈیا انہیں اس بحث میں الجھائے ہوئے ہے کہ پاکستان بنانے والوں کےاصلی مقاصد کیاتھے؟پاکستان اور ہندوستان کی آزادی تو ایک ساتھ چودہ اور پندرہ اگست کی مڈ نائٹ ہوئی تھی پھر ہندوستان اپنا یوم آزادی پندرہ اگست کو کیوں مناتا ہے؟اور ہم چودہ پر کیوں مصر ہیں؟ ویسےپاکستان کاپہلا یومِ آزادی منایا بھی پندرہ اگست کو ہی گیا تھا، بعد میں کیا ہوا؟ اس سے بھی اہم سوال تو یہ ہے کہ پندرہ اگست تو اس نوزائیدہ مملکت کے قیام کا دن تھا تو کیوں نہ اسے’’ہیپی برتھ ڈے‘‘ یا قیام کی سالگرہ کا نام دیا جائے۔سوال یہ بھی ہےکہ ہمارے عوام کوان78برسوں میں آزادی کے کون سےثمرات میسر آئے؟ وہ تو جس طرح پہلے رل رہے تھے اس سے کہیں زیادہ آج مہنگائی ،بے روزگاری، ظلم و زیادتی اور بے انصافی کے ہاتھوں بلک رہے ہیں۔ عوامی ووٹ کی طاقت کیا وقعت رکھتی ہے اسکا دکھ کوئی قیدی نمبر 804 یا اس کے ہمنواؤں سے پوچھے۔ پاکستان کے کروڑوں محنت کش غریب عوام اپنے بجلی کے بھاری بل کیسے دیتے ہیں؟ اپنے بزرگوں کی دوائیاں کیسے لاتے ہیں؟ اپنے معصوم بچوں کا پیٹ کیسے پالتے ہیں؟ اسکے بعد ہم اپنی روایتی سوسائٹی کے کمزور طبقات بالخصوص اقلیتوں اور خواتین کیخلاف ہونیوالے جرائم اور تشدد کی طرف آتے ہیں ہماری قدامت پسندسوسائٹی نے جنکا جینا حرام کررکھا ہے۔ ابھی ہم گڈ اور بیڈ طالبان کی سزا بھگت رہے ہیں کہ صدیوں پرانی قدیمی روایات اور سوچ کے زیرِ اثر جرگہ سسٹم ہماری سوسائٹی کو مزید پسماندگی کی طرف لے جانے پر تلا بیٹھا ہے۔ پچھلے دنوں جرگہ کے حکم پر ایک جیتی جاگتی باشعور عورت کو پورے اہتمام سے ٹارگٹ کرتے ہوئے گولیوں سے بھون دیا گیا یہ منظر وحشت انگیز تھا اور بلوچستان کا چیف منسٹر جرگہ کے سرپنچ کو سردار صاحب کہہ کر مخاطب کررہا تھا۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق جائیداد کے تنازع پر ایک نوجوان نے اپنے باپ،دو سگی بہنوں اور تین ماہ کے بھانجے کو مار ڈالا۔ کوئی ہے جو ایسے سانحات کے نفسیاتی پہلوؤں کو واضح کرتے ہوئے بتائے کہ ہماری سوسائٹی کیسے روایتی مذہبیت کے تحت مرد کی برتری کے نظریے پر استوار ہے؟اس ملکِ بدنصیب میں اقلیتوں کیساتھ جس نوع کی زیادتیاں روا رکھی جاتی ہیں افسوس ان پر میڈیا بھی کھل کر آواز نہیں اٹھاتا۔ ضیاء الحق اپنے تمامتر مظالم کے باوجود کہا کرتے تھے کہ ہماری مسلم سوسائٹی میں اقلیتیں مراعات یافتہ طبقہ ہیں۔ کیا اس نوع کا پروپیگنڈا کرنیوالوں کا منہ پکڑاجاسکتا ہے؟؟ یہاں تو حالت یہ ہے کہ ابھی گیارہ اگست کو بانی پاکستان کی اس معروف تقریر کو خوب اچھالا گیا جس میں انہوں نے دستور ساز اسمبلی کے اولین اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’آپکا کوئی بھی عقیدہ ہے، ریاست پاکستان کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوگا‘‘لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ سرکاری طور پر میڈیا میں اتنی سی بات کو بھی کھل کر بیان کرنے سے احتراز کیاجاتا ہے حکومت کی طرف سے جو سرکاری اشتہارات چل رہے تھے ان میں یہ تو کہاجارہا تھا کہ ”آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں مندروں یا گرجا گھروں میں جانے کیلئے“ لیکن جناح صاحب کی اگلی بات بیان نہ کی گئی۔ اور پھر ”یومِ اقلیت“کی کیا رٹ لگائی ہوئی ہے؟؟ جب ہماری ریلیجس مینارٹیز خود اپنے لئے اس نوع کے امتیازی رویوں کو پسند نہیں کرتیں تو انہیں ”یوم اقلیت“دینے کی بجائے انہیں ”یومِ متحدہ قومیت“یا ”ون نیشن ڈے“کیوں نہیں دیتے ؟ مذاہب کے درمیان منافرت و امتیاز کی کھائی کو سرکاری اہتمام میں پاٹنے کی کاوش نہ ہمارے سلیبس میں کی جارہی ہیں اور نہ ہمارے میڈیا میں، جب تک ہم اس ذہنیت سے چھٹکارا نہیں پاتےکیا ہمیں آزادی منانے کا کوئی حق ہے؟۔

تازہ ترین