• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی سیاست کے افق پر ایک بار پھر نئی لکیریں ابھرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے طاقت کے مراکز بدل رہے ہیں اور پرانے اتحاد اپنی شکل کھو رہے ہیں۔برکس جیسے نئے اتحاد تشکیل پا چکے ہیں، ایسے میں الاسکا میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پیوٹن کی ملاقات محض ایک رسمی بیٹھک نہیں تھی بلکہ ایک ایسا واقعہ ہے جس نے دنیا بھر میں ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے۔ بڑی طاقتوں کے سربراہان کی ملاقات طے ہونے میں مہینوں لگتے ہیں لیکن یہ ملاقات سات دن کی ریکارڈ مدت میں طے ہوگئی۔یوکرین جنگ کا مستقبل، یورپ کی سلامتی، توانائی کی منڈی کا رخ اور ایشیا میں طاقت کا توازن یہ سب سوالات اس ملاقات کے گرد گھومتے ہیں۔ امریکہ اور روس میں کشیدگی، ٹرمپ کی لفظی گولہ باری اور مغرب کی پابندیوں کے پس منظر میں ٹرمپ، پیوٹن ملاقات کو ایک ممکنہ ''ڈی ٹانٹ'' (Detente) یعنی کشیدگی میں نرمی کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ دونوں طاقتوں کے مفادات میں بنیادی تضاد موجود ہے۔ ٹرمپ ایک امن پسند،نوبل انعام یافتہ عالمی لیڈر کے طور پر سامنے آنا چاہتے ہیں جبکہ روس اپنی جغرافیائی بالادستی قائم رکھنے کے لیے کسی بھی لچک کا اظہار کرنے سے گریزاں ہے۔اس ملاقات کا سب سے زیادہ چرچا یوکرین جنگ کے تناظر میں ہوا۔اگرچہ کوئی باضابطہ امن معاہدہ سامنے نہ آ سکا۔ اس کے باوجود یہ بات اہم ہے کہ روس کو مکمل طور پر تنہا کرنے کی مغربی کوشش کسی حد تک ناکام ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔پیوٹن اس ملاقات سے کوئی بڑا عملی فائدہ تو نہ لے سکے لیکن انہوں نے یہ پیغام ضرور دیا کہ روس اب بھی عالمی سطح پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ روسی میڈیا اسے اس بات کا ثبوت قرار دے رہا ہے کہ امریکہ بالآخر روس سے بات چیت پر مجبور ہے۔

دنیا اس وقت توانائی کے بحران سے دوچار ہے۔ یورپ روسی گیس پر انحصار کم کرنے کی کوشش میں ہے جبکہ ایشیائی ممالک روسی تیل کے بڑے خریدار بن چکے ہیں۔ اس ملاقات سے فوری طور پر تیل کی قیمتوں یا عالمی توانائی کی سپلائی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی، تاہم یہ امکان ضرور پیدا ہوا کہ روس اپنی برآمدات کو بھارت اور چین کی طرف مزید بڑھائے گا۔ اس سے مغرب کا دباؤ کم ہوگا اور ایشیائی منڈیاں روسی توانائی پر زیادہ انحصار کرنے لگیں گی۔اس ملاقات کے اثرات بھارت پر خاص طور پر نمایاں ہو سکتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت پر تجارتی محصولات عائد کیے ہیں، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ بڑھا ہے۔بھارت دنیا کا تیسرا سب سے بڑا خام تیل درآمد کرنے والا ملک ہے۔ مالی سال 2024-2025ءتک بھارت کے خام تیل کی درآمدات میں روس کا حصہ 35 فیصد تک پہنچ جائے گا جو یوکرائن جنگ سے قبل 18 فیصد تھا۔یہ امر واشنگٹن کے لیے تشویش کا باعث ہے۔بھارت جو وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہا تھا اس صورتحال میں وہ ایک مشکل پوزیشن میں پھنس گیا ہے اگر وہ امریکہ کے قریب رہتا ہے تو روس اور چین کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیںاور اگر وہ زیادہ آزادی اختیار کرتا ہے تو اسے امریکی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

چین اور روس کے تعلقات پچھلے چند برسوں میں پہلے ہی کافی مضبوط ہو چکے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد چین مزید فعال کردار ادا کرسکتا ہے، کیونکہ اگر امریکہ بھارت کو دباؤ میں رکھتا ہے تو چین اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کرے گا۔ امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں بھارت اور چین کے درمیان تعلقات میں بھی ایک نیا موڑ آسکتا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات اور تاریخی کشیدگی موجود ہے، لیکن اقتصادی مفادات انہیں قریب بھی لاسکتے ہیں۔ ممکن ہے بھارت، امریکہ کے دباؤ سے نکلنے کے لیے چین کے ساتھ محدود تعاون بڑھائے۔ یہ صورتحال خطے میں طاقت کے توازن کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا واقعی روس اور امریکہ قریب آ رہے ہیں؟ فی الحال اس کا جواب نفی میں دیا جا سکتا ہے۔ یہ زیادہ تر ایک علامتی قدم تھا جس میں دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کا تاثر دیا۔ تاہم عملی طور پر تعلقات میں اب بھی اعتماد کا فقدان ہے اور دونوں ممالک کے مفادات ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔صدر ٹرمپ اپنی معاشی پالیسیوں کے سبب داخلی دباؤ کا بھی شکار ہیں۔ان پالیسیوں پر امریکہ اور امریکہ سے باہر الگ سے بحث جاری ہے۔ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ انکی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں امریکی اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، مہنگائی میں کمی آئی ہے اور تنخواہوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ان کے مطابق ایپل سمیت کئی بڑی ٹیک کمپنیاں امریکا واپس آ رہی ہیں، اور ملک میں سیکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔انہوں نے بگ بیوٹی فل بل کی منظوری کو معیشت میں بہتری کی بڑی وجہ قرار دیا اور کہا کہ ایپل مزید 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ جبکہ آزاد ذرائع کہہ رہے ہیں کہ امریکہ میں مہنگائی بڑھی ہے اور معاشی بے یقینی میں اضافہ ہوا۔ایک خاموش طوفان ہے جسکا سامنا ٹرمپ کی جماعت کو اگلے الیکشن میں کرنا پڑے گااس پس منظر میں امریکہ بڑے بریک تھرو کا متمنی ہے جبکہ روس بہت محتاط ہے۔ٹرمپ اور پیوٹن کی ملاقات بظاہر کسی بڑے فیصلے کے بغیر ختم ہو گئی، لیکن یہ ملاقات ایک بیج ہے جو آنیوالے وقت میں یا تو امن کے درخت میں ڈھل سکتا ہے یا پھر نئی کشمکش کے کانٹوں میں۔ فی الحال اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ دنیا ایک نئے موڑ پر ہے اور الاسکا کی یہ ملاقات اس نئے سفر کا آغاز ہے۔

تازہ ترین