• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمر رواں کا کارواں ماہ و سال کی چند منزلوں ہی سے گزرا ہے لیکن اندھیرا ہے کہ کاتک کی رات میں دھند کی طرح اتر آیا ہے۔ زیادہ نہیں، کوئی پندرہ بیس برس پہلے صحافت پر بات ہوتی تو ’ لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ‘۔ فہرست سازی سے کیا حاصل، ایک کے بعد ایک مٹی کی خوشبو دار ڈھیریاں شہر خموشاں کی دیوار تک آ پہنچی ہیں۔بے شک صحافت بدل گئی ہے اور چھپے ہوئے حرف کی جگہ مقراض کی رفتار سے چلتی زبان اور ایسے تصویری ٹکڑوں نے لے لی ہے جو لمحوں میں ایسا تنازع کھڑا کر دیتے ہیں جو ہفتوں چلتا ہے لیکن یہ تبدیلی کچھ ہم سے خاص نہیں ہے۔

پچھلی صدی کے ابتدائی برسوں میں اخبار کا سکہ چلتا تھا۔ پھر ریڈیو پرصوتی لہروں نے طوفان اٹھایا۔ مختار صدیقی کا مصرع ریڈیو کے سٹوڈیو کی تصویر تھا۔ ’سرخ بتی نے اشارے سے کہا ہے،بولو‘۔ اس دوران سلو لائڈ کی پٹی پر چلتی پھرتی تصویریں نمودار ہوئیں۔ دوسری جنگ میںبارود اور آگ کا کھیل سینما کی سکرین پر بھی کھیلا گیا۔ جرمن ہدایت کارہ Leni Riefenstahlکی 1935ء میں بنائی گئی فلم Triumph of the Will تکنیکی مہارت کے باوجود جنون کی ناکامی پر منتج ہوئی۔ دوسری طرف امریکی ہدایت کار Michael Curtiz کی 1942ء میں بنائی گئی Casablanca میں محبت کی شفاف سادگی نے بازی جیت لی۔ ’Play it again, Sam‘ ۔ سرد جنگ کے ابتدائی برسوں میں بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن کی دھندلی سکرین پر ہیولہ نما چہرے رائے عامہ کی تشکیل میں مؤثر ثابت ہوئے۔ اخبار آیا تو پیش گوئی ہوئی کہ کتاب کا زمانہ ختم ہوا۔ ریڈیو نے اخبار کی اہمیت پر سوال اٹھائے۔ ٹیلی ویژن نے ریڈیو کی صوتی لہروں کے خلل پذیر ہونے کا عندیہ دیا۔ آج بتایا جا رہا ہے کہ صحافی کی جگہ یو ٹیوبر اور جیتے جاگتے نشریاتی صحافیوں کی جگہ مصنوعی ذہانت بروئے کار آئے گی۔ ماضی کی طرح آج کے خدشے بھی ذرائع ابلاغ کے پھیلتے منظر میں جذب ہو جائیں گے۔ دلیل یہ کہ صحافت میں میڈیم بنیادی اکائی نہیں ۔ صحافت خبر اور پیغام سے تعلق رکھتی ہے۔ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کا حقیقی پیمانہ پڑھنے، سننے اور دیکھنے والوں کے لیے خبر کا اعتبار ہے۔ خبر کا اعتبار ریاستی بندوبست کی شفافیت سے متعین ہوتا ہے۔ افواہ ،سازشی تجزیے اور پراپیگنڈے کے اثرات سے انکار نہیں مگر دھوکے اور اخفا کے ان کھلونوں میں ایک کمزوری ہے۔ اگرچہ امن ، رواداری اور محبت کے پیغام پر تعصب اور نفرت جیسے رویے زیادہ آسانی سے راستہ بنا لیتے ہیں۔ لیکن حتمی تجزیے میں تنقیدی شعور جھوٹی خبر اور سازشی نظریات کی دھجیاں بکھیر دیتا ہے ۔

ہماری صحافت کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ پچاس سے زائد مسلم اکثریتی ممالک میں کوئی ملک ایسا نہیں جسکی صحافتی روایت پاکستان سے زیادہ مضبوط ہو۔ مسلم دنیا سے قطع نظر افریقہ ، لاطینی امریکا اور کھلی اشتراکی آمریتو ں کے علاوہ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی صحافت مجموعی طور پر ریاستی بیانیے کی بازگشت رہی ہے۔ امریکا جیسے ملک میں صحافت کے تاریک منطقے موجود ہیں۔ پاکستان میں صحافت کا راستہ ہرگز ہموار نہیں رہا ۔ ہمارے ہاں ریاست کی سطح پر آزاد صحافت سے عداوت کی روایت بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی اس ملک کی تاریخ۔ تاہم بدترین حالات میں بھی وہ صحافتی روایت موجود رہی جو قلم کی حرمت اور خبر کے ابلاغ کو اپنے پیشے کی بنیادی اخلاقیات سمجھتی ہے۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ اور پروگریسو پیپرز لمیٹڈ کے قصے پرانے ہوئے۔ آج کی صحافت کو سمجھنے کے لیے ستر کی دہائی پر غور کرنا ہو گا۔بھٹو حکومت صحافت دوست نہیں تھی۔ یہ ہمارا پہلا جمہوری تجربہ تھا اور اس میں صحافت پر عتاب نے بہت سی خرابیاں کاشت کیں۔ جولائی 77 ء کی فوجی آمریت نے بھٹو صاحب کے ستائے ہوئے قدامت پسند صحافیوں کو گود لے لیا۔ضیاالحق رائے عامہ کی حرکیات سمجھتا تھا اور اس کا نفس ناطقہ لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن نفسیاتی جنگ کا ماہر تھا۔ ہمارے جیسے ملکوں میں نظریہ تو محض نعرہ ہوتا ہے ۔ اصل قضیہ مفادات کی دوڑ سے تعلق رکھتا ہے۔ ضیاالحق سے معانقہ کرنے والے رجعت پسند سیاسی گروہ نے صحافت اور تعلیم کے میدانوں میں بارودی سرنگیں بچھا دیں۔ روشن خیال اساتذہ کی فہرستیں تیار ہوئیں ۔ نصاب تعلیم بدلا گیا۔ دوسری طرف صحافت میں بھی ایسی ہی تطہیر ہوئی۔ خبر کے ابلاغ اور رائے کے اظہار پر سمجھوتہ نہ کرنیوالوں کو عقوبت خانوں میںبھیجا گیا، کوڑے لگائے گئے، بحالی جمہوریت کے لیے قرارداد پر دستخط کرنے والے 55 صحافیوں کو ستمبر 1983 ء میں بین کر دیا گیا۔ اس قصے کو 50 برس گزر گئے۔ جن بچوں نے جھوٹ کا یہ زہر پیا تھا وہ اب خود صحافت اور تدریس کے بلند ترین درجوں پرہیں۔ ہم فکری سرطان سے متاثرہ تیسری نسل سے نبرد آزما ہیں ۔ ہماری کیا ہے؟ ہم کبھی اس ملک میں ایک اقلیت تھے اور اب محض گنتی کا ایک مختصر گروہ ۔ ان کی جگہ افسانہ ساز ، فسوں گر اور فروختنی کردار متعارف کرائے گئے۔خبر بازار کی جنس قرار پائی۔ گیارہ برس کی تاریکی چھٹی تو ہم ایک دھند آلود منطقے میں داخل ہوگئے جہاں تراشیدہ اخباری جھوٹ کو عدالت میں تسلیم شدہ شواہد کا درجہ دیا گیا۔ پھر نجی ٹیلی ویژن کا دور آیا۔

ایک سرکاری نشریاتی ادارے کو درجنوں اداروں میں بانٹ کر مشتبہ مالی شہرت رکھنے والے کرداروں کے سپرد کر دیا گیا۔ صحافی کے احترام کو لفافے کی گالی میں لپیٹ دیا گیا۔ جس صحافی میں خبر کا خبط باقی تھا اسے اپنی بات کہنے کے لیے ’بلھے شاہ کی بکل‘ اوڑھنا پڑی اور سر پر توا باندھ کر بازار میں نکلنا پڑا۔ ادارتی صفحے پر خبر کو حکایت اور حقائق کو چٹکلوں میں لپیٹ کر لکھنا پڑا۔ یہ دوہرے خسارے کا سودا تھا۔ ابلاغ کی کٹھنائیاں ایک طرف اور زبردست کا ڈنڈا سر پر۔ پھر اس میں کیا عجب کہ سہیل وڑائچ کا کالم بہتوں کو سمجھ نہیں آتااور آپ کا نیازمند درباری قرار پاتا ہے۔ ناصر کاظمی نے جنوری 1959ء میں رائٹرز گلڈ کیلئے کراچی جاتے ہوئے انتظار حسین سے پوچھا تھا ۔’انتظار ،کیا ہم شام کے دربار میں جا رہے ہیں؟‘

تازہ ترین