• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی جمہوریت بلاشبہ صدیوں سے انسانیت کے ماتھے کا جھومر ہے جسکی تاریخ دنیا میں غلامی کے خلاف، انسانی حقوق اور آزادیوں کیلئے جدوجہد کی ایک طویل داستان ہے، آج دنیا بھر میں کمزور اقوام کی سلامتی و ساورنٹی کیلئے سب سے بڑی ڈھارس ہے۔ خامیاں یا کوتاہیاں کہاں نہیں ہوتیں آئیڈیل ازم تو ایک تصور ہے جس کا خواب ہمیشہ دکھایاجاتا رہاہے اور دکھایا جاتا رہے گا۔ اس سب کے باوجود امریکی جمہوریت بھی چرب زبان، موقع پرست اور ڈکٹیٹر ذہنیت لوگوں کے بہکاوے میں آسکتی ہے جو بظاہر گریٹر امریکا کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اسی امریکی جمہوری سسٹم کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ ‎ریاست ہائے متحدہ امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دماغ میں اس وقت ایک ہی دھن سوار ہے کہ جیسے تیسے امن کا عالمی ایوارڈ نوبل پرائز اپنے نام کروالیں۔ انہیں سب سے زیادہ جلن یا حسد صدر باراک حسین اوباما سے ہے۔ اپنی دوسری ٹرم میں وائٹ ہاؤس داخل ہوتے ہی انہوں نے اپنا یہ مشن بنالیا کہ امریکی ڈیموکریسی اور امریکی مفادات جائیں بھاڑ میں مجھے اپنے سرپرسرخاب کا یہ پر سجا کر ہی چھوڑنا ہے۔ پاکستان نے بروقت دانشمندانہ فیصلے کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کی نوبل پرائز کیلئےباضابطہ نامزدگی کی، اسکے بعد آذربائیجان یا آرمینیا اور کئی دیگر متحارب ممالک اپنے کام نکوانےکیلئے ٹرمپ کو نوبل پرائز کا حقدار قرار دینا شروع ہوگئے ۔ حالت یہ ہے کہ روسی صدر پیوٹن جیسے شخص نے بھی ٹرمپ کی اس کمزوری کو بھانپتے ہوئے الاسکا میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ کی امن پسندی کا خوب راگ الاپا اور کہا کہ اگر 2022ء میں ٹرمپ امریکی صدر ہوتے تو یوکرین پر روسی حملے کی نوبت ہی نہ آتی۔ اب انٹرنیشنل ایشوز سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی ذہین انسان اتنی بڑی چھوڑی گئی درفنطنی پر سرپکڑ کر بیٹھ جائیگا۔ ‎ یوکرین کے صدر زیلنسکی جب پچھلی مرتبہ وائٹ ہاؤس پہنچے تو انہیں امریکی پریذیڈنٹ ٹرمپ کی ان ”اعلیٰ خصوصیات“یا اصلیت کا احساس و ادراک نہ تھا جنکے کارن وہ خود کو اور انہیں جمہوری صدور سمجھتے ہوئے آزاد روی سے کچھ حقائق بیان کرنے لگے ،پھر کیا تھا؟ جو ان کے ساتھ ہوئی؟ وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے روتے ہوئے ”بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔“‎ اب کی بار وہ سوچ سمجھ کر پوری تیاری کے ساتھ واشنگٹن آئے سب سے پہلے ٹرمپ کی امن پسندی کا قصیدہ پڑھا اور میڈیا کی جانب منہ کرتے ہوئے بتایا کہ صدر ٹرمپ رشیا یوکرین جنگ رکوانے کیلئےجدوجہد کررہے ہیں۔ اپنے ساتھ سات اہم ترین یورپی ممالک کے قائدین کو بھی وائٹ ہاؤس لے کر گئے مبادا کوئی بات امریکی شہنشاہِ معظم کی طبع نازک کو گراں گزرے تو یورپی قیادت مل کر معاملے کو سنبھال لے ۔ ان سب نے بھی باری باری امریکی صدر ٹرمپ کی مداح سرائی کرتے ہوئے بڑے ہی محتاط اسلوب میں اختلافی پوائنٹس اٹھائے جیسے کہ ٹرمپ رشین پریذیڈنٹ ولادیمیرپیوٹن کی وکالت کرتے ہوئے جب یہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں سب سے پہلے امن کے ایک متفقہ منصوبہ پر اتفاق رائے کرلینا چاہیے اسکے بعد جنگ بندی کا اعلان ممکن گا۔ جس پر جرمن چانسلر نےبڑی تمیز سے گزارش کی کہ جناب صدر ایسا ممکن نہیں ہو گا پہلے جنگ بندی ہو دیگر تمام معاملات اسکے بعد ہی طے کیے جاسکتے ہیں۔ ‎خود پسند لیڈران کی بھی کیا الٹی کھوپڑی ہوتی ہے دوسرے کی قدرافزائی کا انکے پاس پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ جو جتنی چاپلوسی کرے وہ اتنا اچھا ہے جو تلخ سچائی بیان کرے وہ برا ہے۔ انڈین پرائم منسٹر نریندرمودی جب تک”اب کی بار، ٹرمپ سرکار“کے نعرے لگواتے رہے تب تک انکے سب سے قریبی متر تھے جب انہوں نے پاک بھارت فائر بندی کا کریڈٹ ٹرمپ کو دینے سے انکار کیا اس دن سے وہ ایسے راندۂ درگاہ ہوئے کہ ٹرمپ ان کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سےجانے نہیں دے رہے۔ الٹا ٹیرف کی صورت میں ان پر ایسی معاشی بندشیں عائد کرتے جارہے ہیں حقائق کی کسوٹی پر جن کا قطعی کوئی جواز نہیں۔ اگر وہ پیوٹن سے سستا آئل خرید رہے ہیں تو کیا خود امریکا کئی معدنیات اور دھاتیں اب تک انہی سے خریدتا نہیں پایا گیا ۔‎دنیا میں کسے معلوم نہیں کہ ولادیمیرپیوٹن اور بنجمن نیتن یاھو کتنے بے گناہ انسانوں کے قاتل ہیں معصوم بچوں کے خون بھی ان دونوں کی گردنوں پر ہیں۔ پیوٹن کی افواج تویوکرین کے بیس ہزار بچوں کو اٹھا کر لے گئی ہیں جن کے والدین اور خاندان والے بلبلا رہے ہیں، خود ٹرمپ کی بیگم میلانیا نے اس سلسلے میں پیوٹن کو دکھ بھرا خط بھی لکھا ہے۔ پیوٹن اور نیتن یاہو دونوں لیڈران عالمی عدالت انصاف کے ڈکلیئرڈ مجرم ہیں مگر یہ دونوں چونکہ پریذیڈنٹ ٹرمپ کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ان کی مدح سرائی اور قصیدہ گوئی سے کام لیتے ہیں اس لیے صدر ٹرمپ کو ان کے مظالم نظر نہیں آتے وہ ان کے حق میں بدستور بولتے چلے جارہے ہیں ابھی الاسکا میں پیوٹن نے جو کچھ کیا یہ در حقیقت امریکی اقدار کی تذلیل ہے جس کے ذمہ دار خود صدر ٹرمپ ہیں۔

تازہ ترین