پاکستان کے مالی اور معاشی مسائل کا اصل سبب مالی وسائل کا بہت بڑے پیمانے پر کرپشن کی نذر ہوجانا ہے۔ اس ناسور کے خاتمے کے دعوے تو ہر دور میں کیے جاتے رہے لیکن کرپشن کے ناسور کا پھیلاؤ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا گیا۔اس ضمن میںصرف بجلی کے شعبے میں ہونے والی مالی بے ضابطگیوں ، چوری اور غبن کے بارے میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی تازہ رپورٹ نہایت ہولناک ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تمام سرکاری اداروں میں مجموعی طور پر عوام کے ٹیکسوں اور بھاری مقامی اور بیرونی قرضوں سے فراہم کردہ وسائل کتنے بڑے پیمانے پر سرکاری مشینری کے چوروں اور لٹیروں کی ہوس زر کی بھینٹ چڑھ رہے ہونگے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں 4800ارب روپے کی مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے بجلی کے شعبے میں گورننس کے سنگین بحران کو بے نقاب کیا گیا ہے۔یہ رپورٹ مالی سال 2023-24ءکا احاطہ کرتی ہے اور اسے جلد ہی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش کیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرنے اور معاہدوں کے ناقص انتظام کے نتیجے میں مالی وسائل کا بڑا حصہ بدانتظامی اور متعدد معاملات میں کھلے عام چوری کی نذر ہورہا ہے۔ رپورٹ میں 6کیسز میں 2,212.95ملین روپے مالیت کی چوری، غبن اور خرد برد، 86 کیسز میں 156,141.88 ملین روپے کی خریداری یامعاہداتی بے ضابطگیوں اور77 کیسز میں ادارہ جاتی قواعد کی خلاف ورزی کی نشان دہی کی گئی ہے جن کی مالیت 507,242.82ملین روپے ہے۔ 90کیسز میں وزارت توانائی، وزارت خزانہ، کابینہ ڈویژن، ایکنک، اے جی پی اور نیپرا کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیاں سامنے آئی ہیں جن کی مالیت 957,751.65ملین روپے ہے۔اس صورتحال کی بنا پر پورے سرکاری نظام میں مکمل شفافیت اور ڈیجیٹائزیشن کا اہتمام اور ہر سطح پر صوابدیدی اختیارات کا خاتمہ ناگزیر ہے۔