اس وقت جو کلائوڈ برسٹ یا بادلوں میں شگاف ہوا اور اس سے گلگت بلتستان،خیبر پختون خوااور آزاد کشمیرمیں انسانی جانیں ہی نہیں،مال اسباب کیساتھ اپنے حاکموں پر بھروسہ بھی بہہ گیا ہے۔بلوچستان کے بعد سندھ اور پنجاب میں بھی طغیانی عروج پر ہے۔وہ دور اب بہت پیچھے رہ گیا جب بڑے لوگ پجیرو،لینڈ روور یا جہاز پر بھاگ کے محفوظ مقامات پر جاتے تھے اور پیچھے رہ جانے والوں سے کہتے تھے کہ اپنے اللہ سے گناہوں کی سچے دل سے معافی مانگیں، لٹنے والے کئی برس اس پر عمل کرتے رہے مگرآہستہ آہستہ وہ کہنے لگے کہ ہم یہ ماننے کیلئے تیار نہیں کہ امیروں اور حاکموں کا خدا اور ہے غریبوں اور بے گھروں کا رب کوئی اور ہے۔ شاید تین قسم کے انسان ہر دور میں،ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ امید پرست،یاسیت میں ڈوبے ہوئے اور ہر شے سے بے تعلق اور بے نیاز، تیسری قسم کے لوگوں پر بجلی بھی گرتے ہوئے گھبراتی ہےاور طغیانی بھی ادھر کا رخ نہیں کرتی کہ ان ظالموں کو یاسیت بھرے ،واویلا کرتے ہوئے لوگ اچھے لگتے ہیں۔
یہ منظر دیکھ کر بے اختیارارشد ملتانی یاد آتے ہیں،وہ جراح تھے مگر غریبوں کے،جو ہر مرہم یا پھاہے کے عوض چونی،اٹھنی یا زیادہ سے زیادہ ایک روپیہ لیتے تھے ان کا ایک شعر سن لیجئے:
ہے فرق بہت زاویہ فکر و نظر کا
تو شام پہ قانع ہے میں قائل ہوں سحر کا
شاید انہوں نے ایک مشاعرے میں یہ شعر بھی پڑھا تھا
حالات ہر اک شخص کو درپیش ہیں یکساں
کچھ فرق اگر ہے تو ہے انداز نظر کا
سارا ماجرا اسی انداز نظر کاہے اگر آپ مایوس ہیں توپھر لوگوں کو چیختے چلاتے دیکھ کے خوش ہوتے ہیں کہ ’’قیامت‘‘آ گئی ہے۔باجوڑ میں سبھی اس استاد کو سلام کر رہے ہیں جس کا مدرسہ اس پانی میں اس طرح بہا کہ اس کی صرف بالائی منزل پر کچھ معصوم شاگرد بچ گئے مگر اس استاد نے اپنے شاگردوں کی جان بچا کے استادوں کی عزت بچا لی۔ ابھی ایک سیمینار میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایک سابق سربراہ فرما رہے تھے جب تک ہمیں جاپان کے برابر فنڈز نہیں ملتے ہمارے اداروں کی پس ماندگی نہیں جائے گی۔کیا جاپان کے پاس صرف روپیہ پیسہ ہے؟ جب جاپان میں سونامی آیا جس میں کئی سفینے،ٹرینیں مسافروں سمیت بہہ گئیں ہزاروں لاکھوں بے گھر ہوئے میں تب اوساکا یونیورسٹی کے ایک انسٹی ٹیوٹ میں پڑھا رہا تھا اس قوم کا صبر،ہمت،ایثار اور احسان شناسی بہت بڑا سرمایہ ہے کئی دن تک لاکھوں بے گھر بھوکے پیاسے لوگ کس طرح رہے میں آپ کو بتا نہیں سکتا،ان کے میڈیا نے بار بار ممنونیت کیساتھ بتایا کہ کئی گاڑیوں میں پکا پکایا کھانا لیکر سب سے پہلے ایک پاکستانی پہنچا۔ پھر جو اوساکا یونیورسٹی کا کانووکیشن ہوا تو میں دنگ رہ گیا مہمان خصوصی کوئی وزیر،کبیر یا مشیر نہیں تھا جو لکھی ہوئی تقریر بھی روروکے یا رلا رلا کے پڑھتا ہے وہ اسی یونیورسٹی کا نوبل انعام جیتنے والا ایک سائنسدان تھا،اسکی تقریر کئی درجن اسکرینوں پر دکھائی اور سنائی جا رہی تھی اور دنیا کی چھ زبانوں میں ترجمہ ہو رہا تھا اس نے گریجویشن کرنیوالے نوجوانوں سے کہا ’’فطرت ہماری دوست ،حریف اور معلم ہے ،ہم نے طوفانوں اور زلزلوں سے بہت کچھ سیکھا ہے مگر بچو! ہماری نسل نے سوچا تھا کہ اگر ہم اپنی تنصیبات سمندر کی تہہ میں رکھیں گے تو وہ محفوظ رہیں گی مگر ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہمیں اور ٹیکنالوجی اور حکمت عملی اختیار کرنی ہو گی،تو آپ وہ تلاش کرو‘‘۔
٭٭٭٭
محمد رفیق رجوانہ جب گورنر پنجاب تھے تو ایک تقریب سے پہلے ایک خوب رو میزبان نے پوچھا ’’سر! آپ ایچی سونین ہیں،ابدالین ہیں،راوین ہیں یا...‘‘؟ مسلم ہائی اسکول اور ایمرسن کالج میں ہمارے ساتھ پڑھنے والے اس خود شناس نے کہا’’ بھئی! میں تو ٹاٹیّن ہوں‘‘میرے اسکول میں ٹاٹ بچھے ہوتے تھے اورکالج میں ڈیسک ٹوٹے ہوتے تھے مگر میرے اسکول کے مباحثے،موسیقی کی محفلیں،ڈرامے،بینڈ،فٹ بال، کتاب خانہ اور چمن زار کے ہر رنگ کے گلاب پر لکھا ہوتا تھا کہ صدر معلم چوہدری عبدالرحمان ہی باغبان ہے جو غریبوں کے بچوں کو بھی اعتماد سے جینا سکھا رہا ہے،کالج میں بھی اچھے پرنسپل آئے کم اچھے بھی مگر ہمارے استادوں(عرش صدیقی ،فرخ درانی، ظفر اقبال فاروقی، اسلم انصاری ، سید ریاض حسین زیدی،سید اقبال عباس نقوی،نصیرالدین صدیقی) جیسا کوئی نہ آیا۔پھر ہمارے کچھ ساتھیوں نے ایمرسونین بنائی، توبات ہونے لگی کہ ایک سو پانچ برس قبل قائم ہونیوالے اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ ملنا چاہئے۔ خان اعظم نے اپنی غیب دان دلہن کے مشورے سے ایک گراں خواب گونگے پہلوان کو وزیر اعلیٰ بنایا کہ اس کے نام کا پہلا حرف’’ع‘‘ ہے تب یہ کالج یونیورسٹی بنا اور پہلے وائس چانسلر انگریزی کے استاد ڈاکٹرنوید احمد چوہدری بنے جنہوں نے اپنی محتاط روش کے باوجود اس میں وہ ادارے اور ضوابط بنائے جو یونیورسٹی کی پہچان ہوتے ہیں۔اب تجویزہے کہ جنوبی پنجاب کی جامعات میں وائس چانسلروں کے تقرر کی نئی سرچ کمیٹی محمد رفیق رجوانہ کی قیادت میں بنائی جائے ،سرجن ڈاکٹر ہارون پاشا،ڈاکٹر مفتی سعید الرحمن اور ڈاکٹر صاعقہ امتیاز جیسے افراد اراکین ہوجائیں اور موجودہ وائس چانسلر سے درخواست کی جائے کہ وہ رخصت قبل از ریٹائرمنٹ پر چلے جائیں۔
٭٭٭٭
اس وقت سچے دل سے توبہ کے مشورے پر بات ہو رہی ہے مولوی نذیر احمد نے توبتہ النصوح نامی پورا ناول لکھا نصوح کا ساتھ اسکی بیگم فہمیدہ نے دیا بہت سی دشواریاں آئیں مگر یہ دونوں گھر کے افراد کو سدھارنے میں کامیاب ہوئے مگر کیا کیجئے کہ نصوح کی بیگم ایک ہی تھی۔ اسی کالم میں’’غیب دان دلہن‘‘کا ذکر آیا وہ بھی عبدالحلیم شرر کا ناول ہے۔