بے حسی ……
جب وہ بٹوارے میں اجڑنے والی بستیوں کی کہانیاں پڑھنا چاہتا،
تو انتظار حسین کی کتابیں اٹھا لیتا۔
جب فکشن کا ’’بہاؤ‘‘ پرکھنا چاہتا، تو مستنصر حسین تارڑ کے ناولز پڑھتا۔
افسانوں سے محظوظ ہونا چاہتا، تو اسد محمد خاں کی کتب کا رخ کرتا۔
باکمال شخصیات کے خاکے پڑھنے کی خواہش ہوتی،
تو لائبریری میں موجود عرفان جاوید کی کتابیں تلاش کرتا۔
کبھی وہ رفاقت حیات کے ’’رولاک‘‘ کے ساتھ سفر کرتا،
کبھی سید کاشف رضا کی ’’گل دوگانہ‘‘ سے غزلیں اور نظمیں پڑھتا۔
البتہ جب ہنسنا چاہتا، تو کتابوں کے بجائے حکمرانوں کے وہ بیانات پڑھنے لگتا،
جو وہ قدرتی آفات میں ہونے والی اموات اور تباہی کے بعد دیا کرتے۔
اُن بے حس بیانات کو پڑھ کر وہ اتنا ہنستا
کہ آنکھوں میں آنسو آجاتے۔