• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کو تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا ہے۔ آنکھوں کے سامنے اپنی دھرتی کی زرخیزی ،درخت جانور اور مکان بہتے دیکھ کر اذیت ناک خسارے کا احساس دل میں ماتم بپا کئے ہوئے ہے۔ لٹے پٹے لوگوں کو دیکھ کر سوچتی ہوں اس دھرتی کے باسیوں کو کتنی بار گھر کے ہجر اور ہجرت کا سامنا کرنا ہوگا۔گھر کچا ہو یا پکا انسان کی انسیت کا مرکز ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ دل میں بسیرا کر لیتا ہے تو زیادہ دن اپنائیت ، وقار اور آزادی کے اس مرکز سے دور رہنا ممکن نہیں رہتا، ہم کہیں چلے جائیں تو اپنے پیاروں سے زیادہ اس کی یاد ستاتی ہے۔کیونکہ اس جیسی ہمراز پناہ گاہ کہیں اور میسر نہیں ہوتی، اس کے درودیوار نے ہماری وہ یادیں اور راز سنبھالے ہوتے ہیں جو ہم کسی اورسے نہیں بانٹ سکتے، ان دیواروں میں موجود اور کوچ کر جانیوالے اپنوں کی رچی خوشبو روح کو نہال رکھتی ہے، ایسے کتنے گھر ان دریاؤں کی لہروں کی نذر ہوئے۔ جن کےخشک ہونے پر ہم نوحے لکھا کرتے تھے۔ دریائوں کی شادابی کیلئے مانگی گئی دعائیں اس طرح بھی قبول ہو سکتی ہیں اندازہ نہیں تھا۔ دیکھا جائے تو پنجاب میں سیلاب نہیں آیا، دریاؤں نے پوری شدت سے طاقتوروں سے اپنے قبضے واگزار کرا کے اپنے راستے بحال کیے ہیں۔لیکن نقصان بہت اذیت ناک ہے۔ دھرتی سے جڑت رکھنے والے لوگ اپنی فصلوں اور جانوروں سے بھی اولاد کی طرح محبت کرتے ہیں، انہیں دیکھ کر جیتے ہیں، انہیں اپنا مخلص دوست سمجھ کر باتیں کرتے ہیں۔ آج کتنے لوگ اپنے کچے پکے گھروں کیساتھ اپنے جانوروں اور فصلوں سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ شاید وہ دوبارہ آشیانے تعمیر کر لیں لیکن ان میں بہہ جانیوالے محبت کے چراغ ، خوشبو کی پوٹلیاں ، یادوں سے بھرے صندوق اور بچھڑنے والوں کا احساس کیسے واپس لا سکیں گے۔ان کا دکھ زندگی بھر کا دکھ ہے، جان بچنے کی خوشی ایک طرف لیکن زندگی بھر کی متاع کے لٹنے کا غم بھی بہت بھاری ہے ،پھر سیلاب کے بعد اکثریت کیلئے آنیوالی دشوار گھڑی کا تصور بھی ان کی پریشان آنکھوں میں ہویدا ہے۔ انہیں اس بات کا بھی قلق ہے کہ اُنکی بہہ جانیوالی فصلوں، سبزیوں، مویشیوں اور اناج کا ہرجانہ ان جیسے ہر فرد کو بھرنا پڑیگا جب انکی قیمتیں پہلے سے کئی گنا بڑھ جائینگی۔ جگہ جگہ کھڑے پانی بیماریوں کا روپ دھاریں گے۔مرے ہوئے جانوروں کا تعفن فضا میں پھیل کر سانسوں کو دشوار اور مزاجوں کو بیزار کریگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب حکومت اس کڑے وقت میں پوری طرح متحرک ہے، میں نے کسی کام کے سلسلے میں لاہور سیکریٹریٹ میں ایک دو لوگوں کو فون کیا تو پتہ چلا کہ سب کی ڈیوٹیاں مختلف علاقوں میں سیلاب زدگان کی مدد کیلئے لگی ہوئی ہیں۔فوج ہمیشہ سے ہنگامی حالات میں جواں مردی سے اپنے کام کرتی رہی ہے اور آج بھی پورے ملک میں اپنے فرائض سرانجام دیتی نظر آتی ہے۔ لیکن خوشی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بار پنجاب پولیس بھی بالکل فوج کی طرح پوری توانائی اور جوش و جذبے کیساتھ لوگوں کو بچانے میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی ایسی ویڈیوز دیکھ کر دل سے بے اختیار دعا نکلی کہ جب چھت یا درخت پر کسی ایک فرد کوبچانے کیلئے ان بہادروں نے دلیری کی نئی مثالیں قائم کیں۔ جو اچانک آنیوالے طاقتور ریلے میں بہہ گئے انکا ازالہ ممکن نہیں لیکن یہ بات حوصلہ بندھاتی ہے کہ میرے پنجاب میں کسی جگہ پانی میں گِھرا، گھنٹوں انتظار کرتا ایک بھی فرد مایوس نہیں ہوا، اس کی مدد کو حکومت کا کوئی نہ کوئی کارندہ ضرور پہنچا اور اسے بحفاظت خشکی تک لایا۔ یاد رہے ہنگامی حالات میں کوئی بھی گورنمنٹ تنہا کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس میں سماج کا بھرپور تعاون ضروری ہوتا ہے۔اس لیے اس وقت تنقید کے تیر چلانے اور موجودہ و سابقہ کی کوتاہیاں یاد دلانے کی بجائے ہمدردی کا مرہم لیکر بے یارو مددگار کے پاس پہنچیں۔ رفاہی تنظیموں، ڈاکٹروں، نوجوانوں، عورتوں، مردوں سب کو اپنی اپنی سطح پر مختلف علاقوں میں منتظر سیلاب زدگان کی مدد کرنے کیلئے نکلنا ہوگا۔اس آزمائش کی گھڑی میں دور دراز علاقوں میں متاثرین کے پاس پہنچنے والے سیاسی جماعتوں کے کارکن اور ہر طبقہ فکر کے لوگ قابلِ تعریف ہیں۔ انھوں نے پنجاب کی اصل روح سے دنیا کو متعارف کرایا ہے کہ اس خطے کے لوگ تماشا دیکھنے والے نہیں قربانیاں دینے والے انسانیت نواز ہیں۔پنجاب حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے سرکاری فنڈ قائم کرے تاکہ ہم سب اس میں حصہ ڈال کر اپنی روح کی تسکین کا سامان کر سکیں۔ہمیں کسانوں کی ڈھارس بندھانی ہے۔ انکے بکھرے حوصلوں کو مجتمع کرنے میں وسیلہ بننا ہے۔ بے گھر ہو جانیوالوں کو دوبارہ آباد کرنے میں معاونت کرنی ہے۔ اپنی دھرتی اور لوگوں کا ہم پر حق ہوتا ہے۔ہر فرد کا اپنی بساط کے مطابق حصہ ڈالنا ضروری مگر مخیر حضرات سے دل کھول کر مدد کی توقع ہے۔

تازہ ترین