سجاول (اے ایف پی )دیہی سندھ میں غذائی قلت کی شرح تشویشناک صورت اختیار کرگئی ہے ۔2018میں کیے گئے قومی سروے کے مطابق سندھ کے دیہی علاقوں میں پانچ سال سے کم عمر کے 48فیصد بچے (یعنی تقریباً ہر دوسرا بچہ ) غذائی قلت کا شکار ہیں، جبکہ 20فیصد کو اس کی شدید ترین شکل کا سامنا ہے، 45فیصد سے زائد خواتین خون کی کمی کا شکار ، کم وزن کے بچوں کی پیدائش ۔یونیسف کے تعاون سے تیار کردہ ایک منصوبے کے تحت اب تک 3,500 ماؤں کو کھانا پکانے کی تربیت دی جا چکی ہے۔ سستی اور آسانی سے دستیاب سوجی ان تربیتی کلاسز کا خاص جزو ہے۔سماجی کارکن عظمٰی کا کہنا تھا،سوجی صرف 50 روپے میں مل جاتی ہے اور اگر ایک چھ ماہ کے بچے کو روزانہ ایک سے دو چمچ دیے جائیں تو یہ ایک ہفتے تک کافی ہو سکتی ہے ۔جنوبی پاکستان کے ضلع سجاول میں مائیں اپنے بھوکے بچوں کو گود میں اٹھائے، سوجی کے پکوان تیار کرنے کا طریقہ سیکھ رہی ہیں، جو کہ غذائی قلت کے مسئلے سے نمٹنے کی ایک کوشش ہے۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں تقریباً ہر دوسرا بچہ غذائی کمی کا شکار ہے۔اگرچہ سندھ صوبے میں کراچی جیسے بڑے بندرگاہی شہر اور ملک کے مالیاتی مرکز موجود ہیں، لیکن ان سے چند گھنٹوں کے فاصلے پر واقع دیہی علاقوں میں بچوں کو جسمانی کمزوری (wasting) اور پست قامتی (stunting) جیسے مسائل کا سامنا ہے۔سجاول کے خشک دیہی علاقے میں، کمزور اور نڈھال بچے شدید گرمی میں نڈھال پڑے ہیں جبکہ سماجی کارکن ماؤں کو غذائیت سے بھرپور اجزاء کے بارے میں آگاہی دے رہے ہیں۔سندھ میں 45 فیصد سے زائد خواتین خون کی کمی (انیمیا) کا شکار ہیں، جس کا نتیجہ کم وزن والے بچوں کی پیدائش کی صورت میں نکلتا ہے، جو بعد میں غذائی قلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔"سجاول میں جہاں صرف ایک چوتھائی آبادی خواندہ ہے، وہاں غذائی حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیاں بھی خواتین کو ضروری غذائیت سے محروم رکھتی ہیں۔سجاول میں 72 فیصد بچے پست قامتی (stunting) کا شکار ہیں، جبکہ پاکستان بھر میں یہ شرح 42 فیصد ہے، جو دنیا میں بلند ترین شرحوں میں سے ایک ہے۔