• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسٹس منصور کا نئے عدالتی سال کی تقریبات سے قبل چیف جسٹس کے نام ایک اور خط

اسلام آباد ( رپورٹ:،رانا مسعود حسین) سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ،مسٹر جسٹس منصور علی شاہ نے 8 ستمبر سے شروع ہونے والے نئے عدالتی سال کی تقریبات شروع ہونے سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان ،مسٹر جسٹس یحیٰ آفریدی کے نام ایک اور خط لکھ کران سے جوڈیشل کانفرنس کے ایجنڈہ پر چھ اہم او ر سخت سوالات کے جوابات مانگ لئے ،جسٹس منصور علی شا ہ نے 7صفحات پر مشتمل خط میں کہا کہ وہ یہ خط آپ کے بعد سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج ہونے کے ناطے دلبرداشتہ ہو کر اور ادارہ جاتی ذمہ داری سمجھ کر لکھ رہا ہوں، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، اس سے پہلے بھی متعدد بار آپ کو ان معاملات کے حوالے سے خطوط لکھ چکاہوں ،لیکن ان پر نہ تو کوئی تحریری جواب موصول ہوا ہے اور نہ ہی زبانی بات چیت ہوئی ہے،چیف جسٹس کی جانب سے عدالت کے سب سے سینئر جج کے خط پر اس طرح کی خاموشی؟ نامناسب رویہ ہے جو کہ عدالت کی اجتماعی روایا ت اور ادارہ جاتی احترام کو کمزور کرتا ہے جن کے بغیر یہ آئینی عدالت چلائی ہی نہیں جا سکتی ہے ،فاضل جج نے چیف جسٹس کے سامنے پہلاسوال اٹھایا ہے کہ(اول) سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت قائم کی گئی ʼʼ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو کبھی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے کیوں نہیں بلایا گیا ؟(دوئم ) 1980 کے سپریم کورٹ کے قواعد میں ترمیم فل کورٹ میٹنگ کے بجائے سرکولیشن کے ذریعے کیوں منظور کی گئی ؟(سوئم ) اختلافی نوٹس پر انفرادی رائے کیوں لی گئی اور فل کورٹ میں اس پر مباحثہ کیوں نہیں ہوا؟ (چہارم ) ججوں کی رخصت پر جانے کے حوالہ سے جنرل اسٹینڈنگ آرڈر کیوں جاری ہوا؟(پنجم ) 26ویں آئینی ترامیم کے خلاف دائر کی گئی درخواستیں آج تک اوریجنل فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لئے کیوں مقرر نہیں کی جا سکیں؟(ششم ) اصل سوال یہ ہے کہ عدالت آزاد ججوں کی ہوگی یا منظم قوت میں بدلی جا رہی ہے؟جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس سے کہا ہے کہ ان تمام سوالوں کے جوابات 8ستمبر کی جوڈیشل کانفرنس میں عوام کے سامنے پیش کریں، مجھے یقین ہے کہ آپ جوڈیشل کانفرنس کو ادارہ جاتی تجدید کا موقع سمجھیں گے اور ان سوالات کے جوابات دے کر اجتماعیت اور آئینی وفاداری کے اصولوں کی توثیق کریں گے۔
اہم خبریں سے مزید