پاکستان ایک بار پھر قدرتی آفات کی زد میں ہے۔ مون سون بارشوں کا وہ سلسلہ جس کا آغاز چند ہفتے قبل ہوا تھا، اب تک سینکڑوں قیمتی جانیں نگل چکا ہے اور ہزاروں خاندانوں کو کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار چھوڑ گیا ہے۔ ان حالات میں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی تنظیم ہیلپنگ ہینڈ نے سیلاب میں گھرے اپنے پاکستانی بھائیوں کیلئے 5ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے ۔ 2005ءکے پاکستان میں قیامت خیز زلزلے سے لیکر آج تک قدرتی آفات میں ہیلپنگ ہینڈ نے ہمیشہ دوسری فلاحی تنظیموں کی طرح آگے بڑھ کر مدد کی ہے ۔پاکستانی قوم اپنے ان محسنوں کو کبھی نہیں بھولے گی ۔ اس وقت سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حالیہ بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں خیبرپختونخوا ، آزاد کشمیر ، گلگت و بلتستان ، کراچی اور پنجاب میں اب تک جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ صرف خیبر پختونخوا میں 500سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ کراچی جیسے بڑے شہر میں 235 ملی میٹر بارش کے نتیجے میں 15 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پنجاب میں بھی سیلاب نے ہر طرف تباہی مچا دی ہے ۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ کہانیاں ہیں ان گھروں کی جو ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں، ان ماؤں کی جو اپنے بچوں کو کھو چکی ہیں، بلوچستان اور سندھ کے کئی علاقے اب بھی شدید خطرے میں ہیں، کیونکہ بارشوں کا سلسلہ تھمنے کے بجائے مزید شدت اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق ابھی چند روز تک مزید دو بارشوں کے سلسلے متوقع ہیں جن سے نقصانات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔یہ سوال بار بار ہمارے ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ آخر ہم ہر سال انہی مسائل کا سامنا کیوں کرتے ہیں؟ کیا یہ صرف قدرتی آفات ہیں یا ہمارے نظام کی ناکامی بھی اس میں شامل ہے؟ بدقسمتی سے پاکستان میں شہری منصوبہ بندی، نکاسی آب کے نظام اور ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے اداروں کی تیاری ہمیشہ ناقص رہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ بارش کا پہلا قطرہ گرتے ہی نظام زندگی مفلوج ہو جاتا ہے اور عوام اپنی جان و مال بچانے کیلئے خود ہی جدوجہد پر مجبور ہوتے ہیں۔ کراچی جیسے شہر اور صوبہ پنجاب میں جہاں ملکی آبادی کا بڑا حصہ موجود ہے ۔بارش کے چند گھنٹے ہی نظام کو مفلوج کر دیتے ہیں۔ایسے مشکل وقت میں اگر کوئی امید کی کرن دکھائی دیتی ہے تو وہ وہی لوگ اور ادارے ہیں جو انسانیت کی خدمت کے جذبے سے میدان میں اترتے ہیں۔ ان اداروں نے حالیہ تباہ کاریوں کے دوران فوری ریسکیو اور ریلیف کا کام شروع کیا اور سیلاب زدہ علاقوں میں اپنی خدمات جاری رکھی ہوئی ہیں۔ ان کی ایمرجنسی رسپانس ٹیمیں ملک کے 12 متاثرہ اضلاع میں بھرپور طریقے سے سرگرم عمل ہیں۔ یہ ٹیمیں متاثرین کو پکا ہوا کھانا، پینے کا صاف پانی، خوراک کے پیکیجز اور دیگر ضروری اشیاء فراہم کر رہی ہیں۔ الحمدللہ، اب تک ان کاوشوں کے ذریعے ہزاروں افراد تک امداد پہنچائی جا چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کس طرح محدود وسائل کے باوجود، اگر نیت اور جذبہ خالص ہو تو بڑے پیمانے پر لوگوں کی زندگیاں سنواری جا سکتی ہیں۔ یہ ادارے متاثرہ خاندانوں کی بحالی اور طویل المدتی ترقی کیلئے بھی عملی اقدامات کر رہےہیں۔ انکی خدمات صرف ایمرجنسی ریلیف تک محدود نہیں بلکہ یہ تعلیم، یوتھ ایمپاورمنٹ، صحت و تغذیہ، اسکلز ڈیولپمنٹ، یتیموں کی کفالت اور شیلٹر ریلیف جیسے پروگرامز بھی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ کاوشیں ایک ہمہ جہت حکمتِ عملی کی عکاسی کرتی ہیں، جو متاثرہ خاندانوں کو فوری ریلیف سے لے کر پائیدار بحالی اور خود انحصاری تک کا سفر طے کرنے میں مددگار ہیں۔یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ کوئی بھی ادارہ، چاہے وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، اکیلا ان مشکلات کا حل نہیں نکال سکتا۔ ایسے میں عوامی تعاون کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہےجبکہ یہ موقع ہے کہ حکومت اور پالیسی ساز ادارے خیبر پختونخوا ، آزاد کشمیر ، گلگت و بلتستان ، کراچی اور پنجاب میں ہونے والی سیلابی تباہی کو ایک سبق کے طور پر لیں۔
ہر سال کی طرح وقتی اقدامات کر کے معاملات کو ٹال دینا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ پاکستان کو ایک جامع ڈیزاسٹر مینجمنٹ پالیسی کی ضرورت ہے جس میں موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شہروں کی منصوبہ بندی کی جائے، ڈیم اور ذخائر تعمیر ہوں، نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنایا جائے اور سب سے بڑھ کر عوامی شعور کو اجاگر کیا جائے۔ آج پاکستان کے لاکھوں عوام ایک بار پھر بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان کی نظریں ان ہاتھوں کی طرف ہیں جو ان کی مدد کیلئے بڑھیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت، ادارے اور عوام سب مل کر اس مشکل گھڑی میں متاثرین کے ساتھ کھڑے ہوں۔ قدرتی آفات کو روکا نہیں جا سکتا، لیکن بہتر منصوبہ بندی، فوری امداد اور اجتماعی تعاون سے نقصانات کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ یہ لمحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسانیت سب سے بڑی خدمت ہے۔ آج اگر ہم اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کیلئے سہارا بنے تو کل کو کوئی ہمارے لیے بھی سہارا بنے گا۔